تبدیلی کے سونامی نے ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچایا ہے اُس کے اثرات سے نکلنے کے لئے کئی برس درکار ہوں گے، اِس لئے یہ طعنہ زنی یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا وقت نہیں، سیاسی ومعاشی گرداب میں پھنسی کشتی کو منجدھار سے بحفاظت نکالنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی ناتجربہ کاری اور نااہلی کے باعث یہ ملک نان زیرو سم گیم کی سطح پر آ گیا ہے، جہاں کسی ایک فریق کی جیت یا ہار نہیں ہو گی بلکہ پورے ملک کی ترقی و خوشحالی دائو پر لگی ہے، اگر کسی معقول حکمت عملی کے نتیجے میں ہم اس صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تو سب کی جیت ہو گی ورنہ سب ہار جائیں گے اور فتح کا جشن منانے والا کوئی نہ ہو گا۔
لیکن یہ نان زیرو سم گیم ہے کیا؟ گاہے یوں لگتا ہے جیسے یہ زندگی چیستاں میں لپٹی پہیلی میں چھپا ایک ایسا معمہ ہے جو شاید کبھی حل نہ ہو پائے اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کتابِ زیست کے اوراق تو بہت واضح اور قابلِ فہم ہیں۔ مثال کے طور پر پیدا ہوتے ہی ہم بچوں کو سکھاتے ہیں کہ اگر آپ کو آگے بڑھنا اور لڑنا ہے تو ہارنے والوں کی شکست وریخت پر قدم رکھتے ہوئے پیش قدمی کرنا پڑے گی یعنی آپ کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ باقی سب لوگ ناکام ہوں اور آپ ان کو پچھاڑتے اور فتح کے جھنڈے گاڑتے چلے جائیں۔ بچپن میں کھلونوں کی چھینا جھپٹی سے کلاس میں پہلی پوزیشن لینے تک، ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی یہ کشمکش زندگی بھر جاری رہتی ہے۔ ہر مقابلے، ہر میدان کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اپنے حریف کو چاروں شانے چِت کرنا ہے۔ یہی وہ بنیادی اصول ہے جس کی بنیاد پر پوری دنیا ایک گول دائرے میں گھوم رہی تھی۔ اقتصادی ماہرین اور ریاضی دان اسے اپنی اصطلاح میں ’’زیرو سم گیم‘‘ کہتے ہیں یعنی جمع تفریق کے بعد نفع یا نقصان کا شمار کریں تو جواب زیرو آتا ہے۔ ایک شخص نے بازی لگائی، اُس نے اگر پچاس ہزار روپے جیتے ہیں تو جن کھلاڑیوں کو اُس نے مات دی ہے اُن کے مجموعی نقصان کا تخمینہ بھی پچاس ہزار روپے ہی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جیت کا سہرا سجانے کے لئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے، سازشوں کا جال بچھایا جاتا ہے اور مخالفین کو ناکام بنانے کی تگ ودو ہوتی ہے۔
لیکن بیسویں صدی کے اوائل میں دو ماہرین نے ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس نے نہ صرف اس آفاقی اصول کو غلط ثابت کیا بلکہ سوچ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا۔ جان وین نیومان اور آسکر مارگرینسٹرن نے یہ استدلال اختیار کیا کہ ہم انسان ’’زیرو سم گیم‘‘ کے بجائے ’’نان زیرو سم گیم‘‘ کا انتخاب کیوں نہ کریں؟ یعنی ایک ایسا میدان جس میں کسی فاتح کے لئے مفتوح کی حاجت نہ ہو۔ سب کی قسمت کی ڈور ایک دوسرے کی کامیابی یا ناکامی سے بندھی ہو، سب مل کر جدوجہد کریں اور پھر مقدر ساتھ دے تو سب جیت جائیں یا پھر سب ہار جائیں۔ امریکی مصنف رابرٹ رائٹ نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھ کر وضاحت کی کہ ’’نان زیرو سم گیم‘‘ ہے کیا۔ رابرٹ رائٹ کا خیال ہے کہ یہ زندگی کا سب سے بیش قیمت راز ہے، جو کسی انسان نے دریافت کیا ہے۔ ’’نان زیرو سم گیم‘‘ میں نفع اور نقصان کے امکانات بدرجہ اتم موجود ہیں یعنی ’’جیت، جیت‘‘ ہی واحد صورت نہیں ’’ہار، ہار‘‘ بھی ممکن ہے مگر بنیادی اصول یہ ہے کہ یا تو سب کی فتح ہو گی یا پھرسب کی ہار۔ اس کھیل کا کمال یہ ہے کہ سب کھلاڑی ایک اکائی بن جاتے ہیں، کوئی متحارب یا مخالف نہیں رہ جاتا۔ مثال کے طور پر جب 1970میں اپالو تھری میں بھٹکتے 13خلا باز سیاروں کو مسخر کرنے نکلے تو نہ صرف وہ خلاباز بلکہ پوری دنیا ’’نان زیرو سم گیم‘‘ کے اصول پر آگئی۔ اگر وہ ناکام رہتے تو یہ بنی نوع انسان کی ناکامی ہوتی اور اگر کامیاب ہوتے تو یہ سب کی مشترکہ کامیابی ہوتی۔ ان خلابازوں میں سے کسی کو یہ فکر نہ تھی کہ فلاں جیت گیا تو میں ہار جائوں گا۔ اگر ہم زندگی کو اپالو تھری سمجھ لیں اور یہ یقین کر لیں کہ ان خلابازوں کی طرح ہماری کامیابی کی ڈور بھی ایک دوسرے سے جڑی ہے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔
زیرو سم اور نان زیرو سم گیم کی سادہ اور آسان سی مثال تو یہ ہے کہ جب ہم ٹریفک میں پھنسے ہوتے ہیں، ہمارے دائیں ہاتھ والی لین جو آنے والوں کے لئے مخصوص ہوتی ہے، ہم اس پر قبضہ جما لیتے ہیں اور یوں جلدی نکلنے کی جستجو میں گھنٹوں پھنسے رہتے ہیں۔ جب ہم پیدل چلنے والوں کی بھیڑ میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں یا کسی بھی دوڑ میں باقی سب کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو ہم اپنے آگے چل رہے شخص کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش کے دوران غیر دانستہ طور پر خود بھی ایک قدم پیچھے چلے جاتے ہیں، اس کے بجائے اگر ہم ’’نان زیرو سم گیم‘‘ کے اصول پر چلیں تو آگے بڑھتے شخص کو آگے کی طرف دھکیلیں اور اس دوران خود بھی مسلسل آگے بڑھتے چلے جائیں۔
اس سے قبل بھی کئی بار اس حسرت نے انگڑائی لی کہ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم زندگی کے ہر میدان میں ’’زیرو سم گیم‘‘ کے بجائے ’’نان زیرو سم گیم‘‘ کی سطح پر آجائیں، جہاں کسی جیت کا جشن ہو یا ہار کا ماتم، سب سانجھا اور مشترکہ ہو۔ کسی کو جیتنے کے لئےکسی کو مات نہ دینا پڑے۔ زندگی ایک ایسی شرط یا جوا نہ رہے، جس میں ایک آباد ہو تو دوسرا برباد، لیکن اب سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں ملکی حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی نان زیرو سم گیم کی سطح پر آگئے ہیں، جہاں سیاسی وعسکری قیادت ہو یا عوام اور حکام، سب کی ترقی و خوشحالی اور کامیابی و کامرانی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ملک کو اس بند گلی سے کیسے نکالا جاتا ہے۔