• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیرخارجہ کھر کی پریشانیاں۔سخت سوالات کمزور جوابات

اسلام آباد کے لانگ مارچ کی تمام حشر سامانیوں، ہجوم اور ڈاکٹر طاہر القادری کے صدر مملکت، وزیراعظم اور تمام وزراء کو ”سابق وزراء“ یعنی برطرفی کے اعلان کے باوجود وزیرخارجہ حناربانی کھر کا تین روزہ دورہ نیویارک 14تا 17جنوری بدستور جاری ہے۔ اس ماہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا صدر ہے لہٰذا وہ سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کی صدارت بھی کر رہی ہیں۔
علامہ طاہر القادری کے عوامی فرمان کے تحت تمام وزراء کی برطرفی کے باوجود وزیرخارجہ کھر ایشیاء سوسائٹی سے خطاب، سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت اور میڈیا سے انٹرویوز اور دیگر ملاقاتیں اور مصروفیات بطور وزیرخارجہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور تاحال طاہر القادری کی قیادت میں لانگ مارچ اور حکومت کی برطرفی اور دیگر اعلانات کا کوئی اثر نہیں ہوا مگر یہ سرگرم خاتون وزیرخارجہ کو اپنے گزشتہ دوروں کے مقابلے میں اس مرتبہ نیویارک میں ہر ہر محاذ پر مشکل صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ وہ جس حکومت کی نمائندگی کرتی ہیں اس کی صلاحیت، ساکھ، طریقہ گورننس کرپشن، عوام سے عدم لگاؤ اور شہریوں کی جان و مال کیلئے تحفظ کی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکامی کے حوالے سے ایسے سوالات کا سامنا ہے کہ جن کے جواب میں محض دہشت گردی کا عذر پیش کردینا نہ تو کافی ہے اور نہ ہی اب یہ قابل قبول رہا ہے خصوصاً بلوچستان میں جس طرح صرف ایک ہی دن میں ایک واقعہ میں100/انسانوں کی ہلاکت اور المناک تباہی پر بھی حکومت کے وزراء اور حکام کی لاتعلقی اور مقتولین کے ورثا کے سخت احتجاج کے ہاتھوں بے بس ہو کر پھر گورنر راج کا نفاذ اور صوبے کے وزیراعلیٰ کی صوبے سے دور لاتعلقی سے برطانیہ میں ذاتی مصروفیت پر بھی کچھ نہ کہتا یہ سب کچھ حکومت کی سنگدلانہ سردمہری کا پتہ دیتی ہے۔
وزیرخارجہ حنا ربانی کھر کسی امریکی تھنک ٹینک کے سامنے اس کا کوئی قابل قبول جواز کیا پیش کرسکتی ہیں؟ دنیا جہاں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی مثالی قربانیوں کا اعتراف کرتی ہے وہاں اب یہ سوال بھی کیا جانے لگا ہے کہ پاکستان کے حکمران اپنی نااہلی، غفلت اور ناکامیوں کو بھی دہشت گردی کا نام دے کر ذمہ داری دہشت گردوں پر ڈال دیتے ہیں اور خود کو بری الذمہ قرار دینے میں لگے رہتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں شام میں خانہ جنگی ہورہی ہے لیکن وہاں بھی ایک دن میں اتنے شہریوں کی ہلاکت نہیں ہوتی جتنی کہ بلوچستان میں ایک دن کے ایک واقعہ میں ہزارہ کے لوگوں کی ہوئی ہے ہر واقعہ کے بعد واقعہ کے ذمہ داروں کو مثالی عبرت ناک سزاؤں کا عوامی اعلان کیا جاتا ہے مگر اس واقعہ کے ذمہ داروں کی گرفتاری اور واقعہ کی تحقیقات ہی کبھی سامنے نہیں آتی۔
اطلاعات کے مطابق امریکی میڈیا سے انٹرویوز کے دوران نیویارک میں موجود وزیرخارجہ سے بلوچستان کی صورتحال اور اتنی بڑی تعداد میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے حوالے سے سوالات اٹھائے جانے پر وزیر خارجہ نے وہی پرانا حکومتی موقف دہراتے ہوئے اسے دہشت گردی قرار دے کر جواز پیش کرنے اور جواب کی حد تک محض جواب تو پیش کرنے کی کوشش کی لیکن حقائق کو سامنے رکھئے تو پھر اگلا سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حکمراں اور ان کی حکومت اپنی ”رٹ“ کھو چکے ہیں؟ کیا وہ دہشت گردوں کے سامنے ناکام ہو چکے ہیں؟ کیا دہشت گردوں کی طاقت اور صلاحیت، حکومتی پولیس اور رینجرز سمیت امن و امان قائم رکھنے والے اداروں سے بھی زیادہ ہے؟ آخر حکومت کی طاقت کہاں ہے؟ یا پھر حکمران عوام اور شہریوں کے قتل کی تعداد اور رفتار کے عادی ہو چکے ہیں اور صرف اپنی ذاتی سیکورٹی پر تمام توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔
صدر مملکت وفاقی دارالحکومت چھوڑ کر کراچی میں دن گزار رہے ہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت لانگ مارچ کے ہجوم کی زد میں ہے۔ امریکیوں اور غیر پاکستانیوں کی جانب سے پوچھے جانے والے ان تمام سوالات کے جوابات تو وزیر خارجہ دینے کی کوشش کر رہی ہیں مگر ان جوابات میں دلیل، تاثیر اور وزن موجود نہیں۔ اب تو آبائی وطن پاکستان کو ہر ماہ لاکھوں ڈالرز کا زرمبادلہ بھیجنے والے امریکہ و کینیڈا میں آباد پاکستانی بھی مایوسی اور فرسٹریشن کا شکار ہوکر پوچھنے لگے ہیں کہ آخر پاکستان کا کیا بنے گا؟ اس کا مستقبل کیا ہے؟ وہ دہری شہریت کے حوالے سے عدالتی فیصلوں کے ذریعے پاکستان کے سیاسی نظام سے اپنی ”بے دخلی“ کے باوجود پاکستان کے بارے میں ایک اضطرابی حب الوطنی کا شکار ہیں۔
وہ پاکستان کے خیرخواہ ہیں اور معمولی سی اچھی خبر پاکستان سے آنے پر خوش ہو جاتے ہیں لیکن اب ان کے لئے اپنے غیر پاکستانی دوستوں کے سامنے پاکستان کی صورتحال کے پیش نظر دفاع کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ان کے پاس بھی حکمرانوں اور حکومتی اداروں کی نااہلی، کرپشن، ہوس اقتدار اور انسانی اموات پر بے حسی کے رویّے کے بارے میں کہنے کے لئے کچھ نہیں رہا۔ وہ بڑی بے بسی سے خود بھی سوال اٹھانے لگے ہیں کہ امریکی و کینیڈین پاسپورٹ ضرور ہیں مگر ہماری پاکستانی شناخت ہمیں بڑی عزیز ہے خدانخواستہ پاکستان اگر اپنے ہی حکمرانوں کی نااہلی کے ہاتھوں اگر ”ناکام ریاست“ بن گیا تو ہماری شناخت کیا ہوگی؟
وزیرخارجہ حنا ربانی کھر کی تصویر بھی شائع ہوگی کہ انہوں نے سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کی لیکن پاکستان کیلئے اس دورہ نیویارک میں وہ کیا کامیابی لے کر لوٹی ہیں؟ اس کا جواب کمزور موقف پر مبنی ہوگا۔
تازہ ترین