• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ورلڈ کپ، اسکواڈ کا اعلان ہوتے ہی قومی ٹیم کو بڑا جھٹکا

ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے لئے شائقین کی دلچسپی اور ٹیموں کی تیاری عروج پر ہے،تادم تحریر ایونٹ میں شریک 10 میں سے 8 ٹیموں نے اپنے اسکواڈز کی رونمائی کردی تھی،ویسٹ انڈیز اور افغانستان ٹیم کا اعلان باقی تھا،ٹیموں نے اپنی سلیکشن کے ذریعے ظاہری مگر ابتدائی پاور شو کردیا،23 مئی تک بلا کسی جھجک اور اسکے بعد تکنیکی بنیادوں پر اگرچہ تبدیلی ممکن ہے مگر وہ صرف ایک سے 2ہی کھلاڑیوں کی ہوگی،تاریخ میں دوسری مرتبہ میگا ایونٹ رائونڈ رابن لیگ کی بنیاد پر کھیلا جائے گا،پہلی مرتبہ یہ فارمیٹ 1992 میں آسٹریلیا و نیوزی لینڈ میں منعقدہ ورلڈ کپ میں استعمال ہوا تھا،اتفاق سے پاکستان اس کپ کا چیمپئن بنا تھا،فرق صرف ایک ہوگا ،اس وقت 9 ٹیمیں ایکشن میں تھیں اور اب 10 ٹیموں میں جنگ ہوگی تاہم پاکستان کرکٹ ٹیم کے 27 سال قبل کے حالات اور آج کے معاملات میں ایک بھی فرق نہیں ہے،اس وقت بھی جب ٹیم کا اعلان ہوا تو دستے کے بنیادی بیٹسمین جاوید میاں داد فٹنس کی بنیاد پر ڈراپ ہوگئے تھے،اس وقت کے ابھرتے اور ٹیم کے لئے متوقع ٹرمپ کارڈ وقار یونس سلیکٹ ہونے اور سفر کرنے کے باوجود باہر ہوگئے تھے،آج ٹیم کے انتہائی اہم فاسٹ بولر عامر ملک فارم کی بنیاد پر ڈراپ ہیں،نوجون اسپنر شاداب خان سلیکٹ ہونے کے باوجود وائرس کی وجہ سے انگلینڈ کے ابتدائی سفر سے باہر ہوگئے ہیں اور ان پر ورلڈ کپ سے باہر ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے،محمد عامر کے پاس انگلینڈ میں 5ایک روزہ میچز کی سیریز میں جاندار پرفارمنس پیش کرکے ورلڈ کپ کھیلنے کا سنہری موقع موجود ہے،اسی طرح ڈراپ ہونے والے یاسر کی اچانک لاٹری نکلی،وہ بھی انگلینڈ سیریز میں جادو جگا کر ورلڈ کپ کھیل سکتے ہیں اور رہ گئے شاداب خان ،ممکن ہے کہ انکے اگلے ٹیسٹوں میں ایسی خوشخبری ہو کہ وہ بھی ورلڈ کپ کے لئے ٹکٹ حاصل کرجائیں، 92 کی طرح ڈراپ ہونے والے جاوید میاں داد کی طرح اس مرتبہ محمد عامر واپس آسکتے ہیں اور وقار یونس کی طرح ان فٹ ہونے والے شاداب خان یاتو واپسی کرسکتے ہیں اور یا انکی جگہ لینے والے یاسر شاہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنے آپ کو ایک روزہ میچز کے لئے اہل ثابت کرسکتے ہیں ۔یاسر شاہ 23ممکنہ کھلاڑیوں میں شامل تھے لیکن وہ اعلان کردہ 15 رکنی ا سکواڈ میں شامل نہیں کیا گیا تھا، یاسر شاہ24 میچز میںصرف 23 وکٹیں حاصل کر سکے اسکے لئے انہوں نے 1251 گیندیں کیں اور مہنگے ترین بولر رہتے ہوئے 1090رنزدینے پر مجبور ہوئے ،اکانومی ریٹ 5سے اوپر،اسٹرائیک ریٹ 54 سے زائد اور ایوریج 47سے اوپر رہی ،بہترین بولنگ 26رنزکے عوض 6وکٹیں ہےزمبابوے کے خلاف 2011 میں ون ڈے ڈیبیو کرنے والے یاسر شاہ ایک روزہ کرکٹ کے ناکام ترین اسپنر رہے ہیں وہ ٹیسٹ کرکٹ کے کامیاب ترین بولر ہیں ،انہوں نے انگلینڈ کے خلاف 2016 میں چار ٹیسٹ میچز میں 19وکٹیں حاصل کی تھیں ۔یقینی طور پر وہ 1992 کے اقبال سکندر بننا نہیں چاہیں گے اور سلیکٹرز بھی فاسٹ بولنگ میں ایک اور وسیم حیدر کی ضرورت پیدا نہیں کریں گے،امکان ہے کہ محمد عامر اور شاداب خان میں سے ایک یقینی طور پر ورلڈ کپ میں ایکشن میں ہونگے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کے دورے میں پریکٹس میچز کھیلنے ہیں ،5مئی کو ٹی 20 اور 8 مئی سے 5ون ڈے میچز کھیلنا ہیں،ٹیم کی قوت اور حکمت عملی واضح ہوجائے گی،ایک ماہ سے بھی زائد عرصہ انگلینڈ میں گزارنے والی ٹیم کو ہر حال میں 31 مئی کے پہلے میگا میچ تک سیٹ ہوجانا چاہئے،1992 میں بھی پاکستانی ٹیم قریب ایک ماہ قبل آسٹریلیا گئی تھی،کئی پریکٹس میچز ہارے تھے، اس لئے ہار سے نہ خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہمت ہارنے کی، بس کمبی نیشن میں توازن،مضبوط پلاننگ اور اعصاب پر کنٹرول کے ساتھ آخری لمحے تک لڑنے کی ہمت نظر آنی چاہئے، سابق کپتان ،1992 کے ونر قائد وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک گھنٹہ سے زائد جاری رہنے والی ملاقات میں یہی باتیں کی ہیں، کپتان سرفراز احمد کو ابھی سے پیپر ورک مکمل کرنا ہوگا،رائٹ ہینڈ فاسٹ بولر کی کمی اگر بڑا مسئلہ بن گئی تو اسکا کوئی مداوا نہیں ہوسکے گا،نئے فاسٹ بولر محمد حسنین اگر دوسری ٹیموں کے لئے حیران کن سرپرائز میں بدل گئے تو نتائج مختلف ہوسکتے ہیں،اسی طرح 20 سالہ کیریئر میں صرف ایک ورلڈ کپ کھیل کر 92 رنزبنانے والے شعیب ملک اور محمد حفیظ کا یہ آخری ایونٹ ہوگا،اس لئےان دونوں کو اپنی اپنی جگہ جاوید میاں داد جیسی پر فارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ قرض اتارنا ہوگا بلکہ اب تک اپنی تمام ناکامیوں کے ازالے کے لئے 10 سے 12 اچھی اور میچز ونر اننگز کھیلنی ہونگی۔

تازہ ترین
تازہ ترین