• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انڈونیشیا: وعدوں کی تکمیل، جوکووی پھر سِنگھا سن پر

جوکو ویدیدو مسلسل دوسری مرتبہ انڈونیشیا کے صدر منتخب ہو گئے۔ دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے صدر کا تعلق انڈونیشیا ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ صدارتی انتخابات کے روز ہی مُلک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں اور لوکل باڈیز کے انتخابات ہوئے اور اب تک کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق ان میں بھی جوکو ویدیدو کی جماعت نے واضح اکثریت حاصل کر لی ہے۔ جوکو ویدیدو کے مقابلے پرابوو سوبیانتو صدارتی امیدوار تھے، جو سابق فوجی جنرل ہیں اور ان کا تعلق گریٹر انڈونیشین پارٹی سے ہے۔ انتخابی مُہم میں دونوں صدارتی امیدواروں کے منشور میں واضح فرق نظر آیا۔ مثال کے طور پر جوکو ویدیدو نے اقتصادی ترقّی اور معیشت کی بہتری کو اپنا ایجنڈا بنایا، جب کہ اُن کے حریف نے خود کو ایک قوم پرست لیڈر کے طور پر پیش کیا۔ نیز، انڈونیشیا کو لاحق بیرونی خطرات کی تکرار کر کے خود کو ایک مردِ آہن ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ تاہم، نتائج سے پتا چلتا ہے کہ انڈونیشیا کے باشعور عوام معاشی ترقّی کو اہمیت دیتے ہیں۔ انڈونیشین صدر، جوکو ویدیدو نے، جنہیں عوام پیار سے ’’جوکووی‘‘ کہتے ہیں، اپنی پہلی مدّتِ صدارت میں بھی معیشت کی بہتری پر توجّہ دی تھی اور اس کے سبب ایک عام شہری کا معیارِ زندگی بہتر ہوا۔ نتیجتاً، عوام انہیں دوبارہ اقتدار میں لے آئے۔ نتائج سے قطع نظر انڈونیشیا میں انتخابات کا پُرامن انعقاد بھی اہمیت کا حامل ہے ، کیوں کہ اس موقعے پر دو مضبوط امیدواروں کے باوجود مُلک میں کوئی غیر معمولی تقسیم نہیں دیکھی گئی۔ خیال رہے کہ انڈونیشیا کا تعلق ایک ایسے خطّے سے ہے کہ جہاں چین، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے اقتصادی دیو موجود ہیں اور ہر طرف اقتصادی ترقّی کا غلغلہ ہے۔ لہٰذا، انڈونیشیا کے لیے خود کو معاشی ترقّی کی دوڑ سے باہر رکھنا ممکن نہیں۔ پھر چوں کہ انڈونیشیا نے خارجہ اُمور میں ہمیشہ بڑی حد تک غیر جانب دارانہ پالیسی اپنائی، لہٰذا اسے کبھی غیر معمولی بیرونی دبائو کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ تاہم، یہ امریکا کا حلیف اور آسیان کا رُکن مُلک ہے۔ ان تمام عوامل کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ انڈونیشیا اسلامی دُنیا میں جمہوریت پسند اور اعتدال پسند مُلک کی ایک اچھی مثال ہے۔

انڈونیشیا دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست ہے۔ اس کی آبادی 26کروڑ 25لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور یوں جنوب مشرقی ایشیا میں واقع ملائیشیا ، برونائی دارالسّلام اور بنگلادیش سمیت دوسرے اسلامی ممالک کی آبادی47کروڑ تک جا پہنچتی ہے۔ یہ اسلامی دُنیا کا وہ حصّہ ہے، جو برسوں سے پُر امن انداز میں اقتصادی ترقّی کی راہ پر گام زن ہے اور اس نے اپنے گردوپیش کی ثقافت کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں بحرِ ہند اور بحر الکاہل کے سنگم پر واقع، انڈونیشیا آبنائے ملاکا جیسی اہم اور تزویراتی حیثیت کی حامل آبی گزرگاہ کی سماترا کی بندرگاہ سے نگرانی کرتا ہے۔ دُنیا کی ایک چوتھائی سے زیادہ تجارت یہیں ہوتی ہے اور سماترا بحرِ ہند کی پانچ اہم ترین گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ معروف سیّاح، مارکو پولو نے مذکورہ آبی گزرگاہ کے حوالے سے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ’’بحری قزاقوں کی وجہ سے یہ آبی گزرگاہ بند ہونے سے تمام تجارتی راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔‘‘

انڈونیشیا 3.5ہزار جزائر پر مشتمل مُلک ہے اور اس کا دارالحکومت، جکارتا ہے۔ یہاں حقِ رائے دہی رکھنے والے افراد کی تعداد 18کروڑ 70لاکھ ہے اور یوں یہ ووٹرز کی تعداد کے اعتبار سے دُنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چُکا ہے کہ انڈونیشیا میں صدارتی انتخاب کے ساتھ ہی قومی و صوبائی اسمبلیوں اور لوکل باڈیز کے بھی انتخابات ہوئے، تو اس موقعے پر مجموعی طور پر20,000عُہدوں کے لیے2,45,000امیدواروں نے انتخابی عمل میں حصّہ لیا۔ تاہم، سب سے اہم صدر کا انتخاب تھا، جس میں جوکو ویدیدو نے بہ آسانی کام یابی حاصل کی۔ پولنگ کے دوران 8لاکھ سے زاید پولنگ اسٹیشنز میں کروڑوں ووٹرز نے اپنے انگوٹھوں کے نشانات لگائے اور اس عمل میں لگ بھگ 100ٹن روشنائی خرچ ہوئی۔اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رُوئے زمین پر ایک دن میں سب سے زیادہ ووٹ انڈونیشیا میں ڈالے جاتے ہیں ۔ خصوصی جغرافیائی ساخت کی وجہ سے انتخابات کے نتائج پہنچانے کے لیے تقریباً تمام ذرایع نقل و حمل کا استعمال کیا گیا، جن میں ہوائی جہاز، موٹر بائیکس، موٹر بوٹس، کشتیاں اور گھوڑے بھی شامل تھے۔ انڈونیشیا میں صدارتی امیدوار نام زد کرنے کے لیے کسی جماعت کی پارلیمان میں 20فی صد نشستیں ہونا ضروری ہیں۔

جوکو ویدیدو نچلے طبقے سے سیاست میں داخل ہوئے۔ میدانِ سیاست میں قدم رکھنے سے قبل وہ فرنیچر کا کاروبار کیا کرتے تھے۔ وہ سب سے پہلے لوکل کائونسل کے انتخابات جیت کر صوبے، جاوا کے ایک چھوٹے سے شہر، سولو کے میئر بنے۔ پھر جکارتا کی گورنرشپ حاصل کی اور اس کے بعد گزشتہ صدارتی انتخابات میں صدر کے عُہدے تک پہنچے۔ وہ مُلک بَھر میں ایک ایسے با کردار و ایمان دار سیاسی رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، جو حکومتی و اقتصادی امور پر عبور رکھتا ہے۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں ان کے حریف، پرابوو سوبیانتو سابق فوجی جنرل ہونے کے علاوہ سابق صدر، سوہارتوکے داماد بھی ہیں۔ یاد رہے کہ سوہارتو کواحتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں اپنے طویل اقتدار (1967-1998) سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ سوبیانتو کا بنیادی مؤقف یہ تھا کہ وہ اپنے سُسر کی طرح ایک مردِ آہن ہیں اور ان کے خیال میں انڈونیشیا کو ایک ایسے شخص کی فوری ضرورت ہے، تاکہ وہ معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ بیرونی خطرات سے بھی نمٹ سکے۔ اس کے علاوہ انہوں نے جوکووی کی جانب سے اسلامی جماعتوں کا ساتھ دینےپر مُلک میں موجود اقلیتوں کو اُن کے خلاف اُکسانے کی بھی کوشش کی اور اس کے ساتھ ہی اقتصادی ترقّی کے لیے سابق صدر، سوہارتو کی جانب سے کیے گئے اقدامات کی مثالیں بھی دیتے رہے۔ تاہم، انڈونیشین ووٹرز کو گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی جوکووی کا دھیما مزاج، نرم خوئی اور اخلاق پسند آیا۔

اپنے پہلے دَورِ صدارت میں جوکووی نے مُلک کے قدرتی وسائل پر بہت زیادہ توجّہ دی۔ مثال کے طور پر انہوں نے سونے اور تانبے کی کانوں کو قومیا لیا۔ یاد رہے کہ انڈونیشیا میں موجود دُنیا کی سب سے بڑی سونے کی کان، گراس برگ کے مالک اینگلو آسٹریلینز تھے، جب کہ دُنیا کی دوسری بڑی تانبے کی کان بھی انڈونیشیا میں ہے، جو ایک امریکی کمپنی کی ملکیت تھی۔ ان قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والی دولت سے، تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث سے ہونے والا خسارہ پورا کرکے عام آدمی کو ریلیف دیا گیا، جس سے جوکووی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اپنی اعتدال پسندی اور رواداری کی وجہ سے جوکووی انڈونیشین مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں ہی میں مقبول ہیں اور وہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عُہدۂ صدارت تک پہنچنے والے وہ واحد سیاسی رہنما ہیں، جو فوج یا طبقۂ اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ انہوں نے گزشتہ انتخابات کے دوران مُلک کی معیشت بہتر بنانے کے جتنے بھی دعوے کیے، انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور اس بات کی گواہی ہر انڈونیشین باشندہ دیتا ہے۔ جوکووی نے اپنے پہلے دَورِ صدارت میں تعلیم، صحت اور مواصلات جیسے شعبوں کو بہتر بنایا، جس کی وجہ سے چھوٹی صنعتوں کو بہت فائدہ پہنچا۔

انڈونیشیا: وعدوں کی تکمیل، جوکووی پھر سِنگھا سن پر
ابوو سوبیانتو انتخابات میں شکست کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب عوام شاہ راہوں پر جشن مناتے ہوئے

اس وقت انڈونیشیا کی معیشت ایک انتہائی قابلِ قدر اور زیرک وزیرِ خزانہ، ملیانی اندراوتی کے ہاتھوں میں ہے، جنہوں نے شرحِ نمو کو 5فی صد سے زاید رکھا، جو کسی بھی بڑی آبادی کے حامل مُلک کے معاشی استحکام کی دلیل ہے۔ ملیانی کی حکمتِ عملی ہی کی وجہ سے 2017ء میں انڈونیشیا کی جی ڈی پی ایک ٹریلین ڈالرز سے بڑھ گئی اور بھی کسی اسلامی ملک کا یہ ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے شہریوں کی قوّتِ خرید برطانیہ اور برازیل سے زیادہ اور بھارت سے دُگنی ہے۔ جوکووی نے اپنے پہلے دَور میں کسانوں اور دیہی آبادی کی حالتِ زار بہتر بنانے پر بھی بہت زور دیا، جن کی تعداد مجموعی آبادی کا نصف ہے۔ جب وہ پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے، تو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مُلک کے بنیادی ڈھانچے کو جدید بنانے کے لیے 332ارب ڈالرز خرچ کریں گے، جن میں سڑکوں، ریلوے نظام اور صحت و تعلیم جیسے اہم شعبوں کا سدھار شامل تھا اور وہ کئی بڑے منصوبے مکمل کرنے میں کام یاب بھی رہے، لیکن اُن کے جس عمل نے عوام کو دوبارہ ووٹ دینے پر مجبور کیا، وہ اُن کی چھوٹے اور درمیانے درجے کے منصوبوں پر توجّہ تھی۔ اب ایک عام شہری بھی اپنی زندگی میں بہتری محسوس کر رہا ہے۔ ان کی حکومت نے 75,000دیہات میں ترقّیاتی کاموں کے لیے براہِ راست سرمایہ فراہم کیا اور ایسی قانون سازی کی کہ جس کے نتیجے میں دیہاتیوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا ہوئیں۔ ان منصوبوں میں دیہات میں اسکولز اور صحت کے مراکز کا قیام شامل ہے، جب کہ بڑے منصوبوں میں قومی ریلوے سے مُلک کے ہر حصّے کو جوڑنے کے کام میں تیزی لانا، سرخ فیتے کا کلچر ختم کرنا اور تجارت کے لیے آسانیاں پیدا کرنا شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین سے بھی امتیازی سلوک نہیں کیا۔

انڈونیشیا کی آبادی کا تقریباً 90فی صد حصّہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، جب کہ 10فی صد اقلیت میں سے زیادہ تر کا تعلق عیسائیت سے ہے۔ چُوں کہ انڈونیشین عوام میں برداشت و رواداری پائی جاتی ہے، اس لیے یہاں مقیم اقلیتیں خود کو محفوظ تصوّر کرتی ہیں، لیکن بیرونِ مُلک اور اندرونِ مُلک موجود جوکووی کے ناقدین اُن کے اسلامی جماعتوں کی طرف جُھکائو پر انہیں ہدفِ تنقید بناتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کےاسلامی اسکالر، معروف امین سے اتحاد کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ اس وقت مُلک کے نائب صدر ہیں اور نائب صدارتی امیدوارنام زد ہونے کے بعد انہوں نے دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم، نہضۃ العلماء کے سپریم لیڈر کے عُہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا، لیکن مجموعی طور پر جوکووی کی پالیسی معتدل رہی ہے۔ یاد رہے کہ انڈونیشیا کا کسی مُلک سے کوئی بڑا تنازع نہیں اور نہ ہی پڑوسی ممالک سے کوئی جھگڑا ہے۔ انڈونیشیا نے ہمیشہ علاقائی تنائو میں اُلجھنے سے گریز کی پالیسی اپنائی۔ نیز، غیر وابستہ ممالک کی تنظیم، ’’نام‘‘ کا پہلا اجلاس بھی انڈونیشین شہر، بنڈنگ میں ہوا تھا اور اسی لیے اسے ’’بنڈنگ کانفرنس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تب انڈونیشیا کے بانی، سوئیکارنو مُلک کے حُکم راں تھے اور ان کا شمار غیر وابستہ تنظیم کے پُرزور حامیوں میں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جوکووی نے بھی خارجہ پالیسی سے متعلق بلند بانگ دعوے کر کے اسے اپنی وجۂ شُہرت بنانے کی کوشش نہیں کی اور داخلی مسائل پر توجّہ دی۔ امریکا کا حلیف اور خطّے میں چین اور جاپان جیسی دیوہیکل معیشتوں کی موجودگی کے باوجود انہوں نے روایتی غیر جانب دارانہ مؤقف برقرار رکھا۔ انہوں نے شمالی کوریا کے ایٹمی تنازعے پر وہی پوزیشن اختیار کی، جو سلامتی کائونسل نے اپنائی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام علاقائی ممالک کے ساتھ انڈونیشیا کے تعلقات خوش گوار ہیں اور آبادی کے اعتبار سے اسلامی دُنیا کا سب سے بڑا مُلک ہونے کے باوجود اس نے کبھی شیخیاں نہیں بگھاریں اور نہ ہی او آئی سی میں کسی خصوصی منصب یا امّتِ مسلمہ کے معاملات میں کسی خصوصی کردار کا مطالبہ کیا۔ انڈونیشیا کی غیر جانب دارانہ پالیسی نے اس کے حُکم رانوں کی توجّہ مُلک کے اقتصادی معاملات پر مبذول رکھنے میں مدد فراہم کی، جس کا پھل خوش حالی کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ تاہم، اپنے دوسرے دَور میں انڈونیشین صدر کو مُلکی معیشت کا استحکام برقرار رکھنے کا چیلنج درپیش ہوگا، کیوں کہ اس کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ناقدین اور تجزیہ نگار اس اَمر پر متفّق ہیں کہ جوکووی دوسری مدّت میں بھی خارجی معاملات سے زیادہ داخلی مسائل پر توجّہ دیں گے اور پھر ان کا انتخابی منشور بھی اسی پالیسی پر مبنی ہے۔

اگر پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات کی بات کی جائے، تو دونوں اسلامی ممالک کے درمیان روابط ہمیشہ نہایت خوش گوار رہے ہیں۔ 1965ء کی پاک، بھارت جنگ کے دوران اُس وقت کے انڈونیشین صدر، سوئیکارنو نے پاکستان سے اتحاد و یک جہتی کا غیر معمولی مظاہرہ کیا۔ نیز، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت انڈونیشیا کی نیوی نے، جسے اسلامی ممالک کی بحری ا فواج میں سب سے زیادہ طاقت وَر تصّور کیا جاتا ہے، پاکستان کی مدد بھی کی تھی اور تب بحرِ ہند میں انڈونیشین آب دوزوں کی موجودگی کا ذکر بھی عام ہوا تھا۔ گرچہ اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی، لیکن اُن کڑے لمحات میں انڈونیشیا نے پاکستان کے لیے جس گرم جوشی کا مظاہرہ کیا، اُس نے سوئیکارنو کو ہمیشہ کے لیے پاکستانی عوام کا ہیرو بنا دیا اور اس کا ثبوت لاڑکانہ میں موجود سوئیکارنو چوک ہے۔ بعد ازاں، صدر سوہارتو کے دَور میں پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات اسلامی تنظیم کے پلیٹ فارم پر فروغ پاتے رہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی طرح انڈونیشیا بھی چین کے وَن بیلٹ،وَن روڈ نامی تاریخی منصوبے میں شامل ہے۔ انڈونیشیا، چین سے قُربت رکھتا ہے اور اس کی سرمایہ کاری سے فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ انڈونیشیا کے بعد پاکستان آبادی کے اعتبار سے اسلامی دُنیا کا دوسرا بڑا مُلک ہے۔ گرچہ او آئی سی میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک زیادہ متحرک نہیں اور انڈونیشیا اور ملائیشیا کی توجّہ اپنے اقتصادی معاملات پر مرکوز ہے، لیکن اس خطّے میں روہنگیا مسلمانوں کو جس صورتِ حال کا سامنا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے ان ممالک کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے اور اس ضمن میں جوکووی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین