غزل عشق و محبت ، رنج و علم اور اپنے محبوب کی خوبصورتی کی تعریف پر مبنی وہ صنف ہے جسے غزل گائیک اپنی مدھر آواز میں پیش کرتے ہوئے لوگوں کے دلوں کے تار ہلاتا ہے ۔
پی این سی اے نے اپنی سابقہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے قومی موسیقی میلے کا انعقاد کیا جس میں موسیقی کو سمجھنے اور سننے والوں کے لیے ملک بھر سے کلاسیکل ، نیم کلاسیکل ، فوک ، قوالی اور صوفی گائیکی میں اپنا ثانی نہ رکھنے والے گلوکاروں کو ایک گلدستہ کی مانند پیش کیا۔
ان خیالات کا اظہار جما ل شاہ نے آج کی خوبصورت شام غزل گائیگی کے موقع پر کیا ۔
انہوں نے کہا کہ یہ موسیقی کی وہ صف ہے کہ جس کی جڑیں پاک و ہند میں بہت گہری ہیں اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ غزل جو دل کو چھوکر نہ گزرے تیر بےہدف ہے، غزل گائیگی میں استاد حامد علی خاں، غلام علی خاں، نصرت فتح علی خاں جیسے لیجنڈنے پاکستان کا نام روشن کیا۔
پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے زیر اہتمام ایک ہفتہ پر محیط قومی موسیقی میلے کے چوتھے دن تمام صوبوں سے غزل گائیک نے شرکت کی ۔
آ ج کی اس خو بصورت شام میں حارث بزمی جو پیشے کے لحاظ سے رکشا ڈرائیور ہیں نے غزل’’ وہ نہیں ہے شہر میں ‘‘پیش کی۔
پی این سی اے نے ان کی مدھر آواز کو سامعین کے سامنے روشناس کرایا، سہیل رندھاوا نے ’’فاصلے ایسے بھی ہوں‘‘، ندا فیض نے’’دشت تنہائی‘‘،’’ سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کر دیکھتے ہیں’’ ، نسیم صدیقی نے’’ چپکے چپکے رات دن‘‘، ’’میرے شوق دا نہیں اعتبار‘‘ ، نعیم الحسن ببلونے، ’’آسمان سے اتارا گیا‘‘۔
سائرہ نسیم نے ’’چاہت میں کیا دنیا داری‘‘، ’’مجھ سے پہلی سی محبت‘‘، محمد علی نے ’’ زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں‘‘، ’’دنیا کسی کے پیار میں‘‘ ، حمیرا چنا نے’’رنجش ہی سہی‘‘، ’’ کرو نہ یاد مگر کس طرح‘‘، ’’رات پھیلی ہے تیری سرمئی‘‘، اعجاز قیصر نے ’’تیری طلب میں جلا دئیے‘‘، ’’انکھ بھری ہے تیرے نام ‘‘ اور غلام عباس نے ’’وہ آ تو جائے مگر‘‘، ’’ایسے وہ شرمائے جیسے میگھا چھائے‘‘ پرفارم کیا اور لوگوں سے داد حاصل کی۔
اس پروگرام میں جڑواں شہروں سے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور غزل گائیکوں کو بے حد سراہا۔