• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:نواز سلامت…ڈنمارک
گزشتہ 14برسوں میں خدا مجھے کم از کم پچاس ممالک میں لے جا چکا ہے، اِن ممالک میں یورپ، عرب ممالک، افریقہ، امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔ اِن ممالک کے سفرکا مقصد سیر و تفریح کے ساتھ ساتھ وہاں کی روز مرہ کی زندگی اور ثقافت کو قریب سے جاننا ہمیشہ میری ترجیح رہی ہے، دیکھنے کو تو بہت کچھ ملا لیکن کچھ روایتیں ایسی بھی دیکھنے کو مِلیں جن کو صرف اپنے تک رکھنا ایک بہت بڑی نا انصافی ہو گی۔ آج میں جس موضوع پر بات کرنے کی ہمت کرنے لگا ہوں وہ ہے طلاق اور اس کے بعد کی زندگی۔ طلاق ایک وہ خوفناک لفظ ہے جس کو انسان سن کر ہی دہل جاتا ہے اور وہ لوگ جن کو یہ لفظ اپنے شوہر یا بیوی سے سننا پڑے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کے وہ گھڑی اْن کے لئے قیامت کی گھڑی جیسی ہوتی ہے اور خدا کرے ایسی گھڑی کسی کی بھی زندگی میں نہ آئے۔ لیکن کبھی کبھی اس کا دوسرا رْخ بھی دیکھنا بہت ضروری ہے کہ طلاق کی وجہ کیا ہے، آخرنوبت یہاں تک کیوں پہنچی، مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا بھی خوف یا ندامت نہیں کہ کبھی کبھی راستے جدا کرنے میں ہی خدا کی طرف سے کچھ بہتری ہوتی ہے۔ شروع کرتے ہیں یورپ سے، جہاں میں پچھلے 14سال سے مقیم ہوں، یہاں بد قسمتی سے طلاق کی شرح 50 فیصد تک جا پہنچی ہے اور آسان الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کے ہر دوسری شادی ناکام ہو جاتی ہے، آپ کے ذہن میں پہلا سوال یہ آیا ہو گا کے آخر کیوں؟ ، میں آگے بڑھنے سے پہلے اِس کیوں کا جواب دینا چاہوں گا، پہلے تو یہ کہ ہر طلاق کی کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے، کبھی بے وفائی، کبھی روز کی مار کٹائی اور کبھی دیگرخاندانی مسائل ایک طلاق کی وجہ بن سکتے ہیں، دوسرا ہرگز مت سوچیں کے گوروں کے لئے یہ عام سی بات ہے یا ان کی عادت ہے، کوئی بھی اپنی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتا، گوروں کو بھی طلاق کے حساس مرحلہ سے بالکل عام انسانوں کی طرح دل پر پتھر رکھ کر گزرنا پڑتا ہے اور بہت وقت کے بعد وہ لوگ کسی طرح معمول کی زندگی کی طرف واپس آتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں طلاق کے فوراً بعد عورت کو گھر اور ضرورت کی دوسری چیزیں حکومت کی طرف سے جلد از جلد مہیا کر دی جاتی ہیں اور اگر بچے ہوں تو اور بھی جلدی ان کو سیٹل کرنے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھایا جاتا ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ قانون کے مطابق باپ ہر مہینے بچوں کے اخراجات ادا کرنے کا پابندہوتا ہے، دوسری طرف مرد کے پاس نوکری ہو تو اس کو خود اپنا بندوبست کرنے کا کہا جاتا ہے اور صرف اس حالت میں جلد مدد مل جاتی ہے جب اس کے ساتھ بچوں نے رہنا ہو۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ دی جانے والی سہولتوں کی وجہ سے طلاق کے بعد ایک نئی زندگی شروع کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے، کیونکہ ہر وہ انسان جس کا تعلق جب کبھی کسی طلاق شدہ مرد یا عورت سے ہو تو وہ ضرور وجہ جاننا چاہتا ہے اور اگر اس کی نظر میں بتانے والا سچ بول رہا ہو اور اس کی غلطی بھی نہ ہو تو بات آسانی سے ایک نئی شروعات کی جانب بڑھ جاتی ہے لیکن اگر وہ سمجھے کہ بتانے والا جھوٹ بول رہا ہے یا اس کی غلطی تھی تو سننے والا اپنے قدم پیچھے موڑ لیتا ہے، لیکن سب باتوں کے باوجود زندگی اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے مواقع ضرور دیتی رہتی ہے۔ بات کرتے ہیں عرب ممالک کی، میں ہمیشہ یہ سمجھتا رہا ہوں کہ عرب ممالک میں صرف مردوں کو زیادہ حقوق حاصل ہیں لیکن نہیں آج حقیقت اس کے بر عکس ہے، تمام نہیں لیکن بہت سے عرب ممالک میں عورتوں کے حقوق کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے اور جب کسی عورت کو طلاق ہو تو حکومت اس کی ہر ممکن طریقے سے مدد کرتی ہے اور اگر بچے ہوں تو باپ بھی مالی مدد کا پابند ہوتاہے، ایک انوکھی بات جو میں نے عرب ممالک میں دیکھی کہ آج کے دور میں طلاق شدہ عورت کو نیچی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، اگر عورت کی غلطی نہ ہو تو مرد اور اس کی فیملی بہت آسانی اور خوشی سے اس کو قبول کر لیتے ہیں، ایک اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ عرب ممالک میں آپ کو چار چار بیویوں والے مرد تو ملیں گے مگر وہ عورتیں بھی کم نہیں جو بہت بار طلاق حاصل کر چکی ہوتی ہیں لیکن موجودہ وقت میں کسی نہ کسی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار ہی ہوتی ہیں، آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کے دور میں عرب ممالک میں طلاق کو ہرگز بری نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ میرا دیس، میرا دل، میری جان پاکستان پاکستان، بد قسمتی سے پاکستان میں بھی طلاق کی شرح آئے روز بڑھتی جا رہی ہے، طلاق کی کچھ وجوہات تو دوسرے ممالک کی طرح ہی ہیں جیسے کہ بے وفائی اور روز کی مار کٹائی لیکن چند بہت انوکھی بھی ہیں جو دنیا میں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتیں، جیسے جہیز نہ لانا، لڑکی کا خوبصورت نہ ہونا اور بچے نہ ہونا اور خاص طور پر بیٹا نہ ہونا بھی طلاق کی وجہ بن سکتا ہے۔ ہمارے ملک میں حکومت عورت اور مرد دونوں کی مدد نہیں کرتی اور اگر مسائل ہوں تو ان کو خود ایک قانونی جنگ لڑنا پڑتی ہے، پاکستان میں طلاق کے بعد مرد تو لوگوں کی نظر میں لڑکی کو برا ثابت کر کے دوسری شادی کر ہی لیتا ہے لیکن بیچاری خواتین کے ساتھ جب طلاق کا لفظ جڑ جائے تو ان پر ایک نئی زندگی کے تمام نہیں مگر بہت سے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور بہت سی عورتیں واپس اپنے والدین کے گھر بیٹھ کر اپنے بال سفید کر لیتی ہیں، میں ان خواتین کو سلام پیش کرتا ہوں جو بے بسی یا بچوں کی خاطر اپنی تمام خواہشوں کا قتل خود کر دیتی ہیں لیکن یہ ان کا قصور نہیں بلکہ ہماری سوسائٹی کا قصور ہے جہاں طلاق شدہ عورتوں کو بہت نیچی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور 100میں سے 90مرد تو طلاق کا سنتے ہی انکار کر دیتے ہیں اور جو 10ہاں کرتے ہیں اس کی وجہ کسی لڑکی کا بہت ہی حسین ہونا یا امیرہونا ہو سکتا ہے۔ کاش پاکستانی مرد اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں اور طلاق شدہ عورتوں کو بھی دوسری عورتوں کی طرح عزت دینا شروع کر دیں۔ میری اِس تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ میں درست اور غلط کا فیصلہ کروں، اس کا فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے لیکن میرا مقصد یہ ہے کہ طلاق کے بعد بھی ایک زندگی ہوتی ہے اور اِس کو وقار سے جینے کا حق مرد اور عورت کو یکساں ملنا چاہئے۔
تازہ ترین