• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور ایران صدیوں سے لازوال تاریخی مذہبی ثقافتی اور تجارتی رشتوں میں منسلک ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے تعلقات میں مزید گرمجوشی آئی لیکن پچھلے دو تین عشروں سے بین الاقوامی سطح پر فروغ پانے والی دہشت گردی سے یہ دونوں برادر ہمسایہ ممالک بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان میں بدگمانیاں پیدا ہوئیں۔ جس کی بڑی وجہ دونوں ملکوں کی تقریباً ساڑھے 9سو میل لمبی مشترکہ سرحد کے آر پار بعض ناخوشگوار واقعات کا وقوع پذیر ہونا ہے۔ مثلاً حال ہی میں سرحد کی دوسری طرف ایران میں موجود بلوچ دہشت گرد گروپ نے پاکستان میں گھس کر مکران کوسٹل ہائی وے پر14پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ اس سے قبل مبینہ طور پر پاکستان کی سرحد کے اندر سے ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان جا کر دہشت گردوں نے ایران کے انقلابی گارڈز کی بس پر حملہ کیا اس طرح کے واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے جن سے دونوں ملکوں میں بے اعتمادی کی کیفیت نمایاں ہوئی۔ اس لحاظ سے وزیراعظم عمران خان کا دو روزہ دورہ ایران باہمی تحفظات دور کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی اور دوسرے رہنمائوں سے وزیراعظم کی ملاقاتوں کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا وہ دونوں ملکوں میں دوستی اور تعاون بڑھانے کے حوالے سے بہت بڑی کامیابی کی غمازی کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کی قیادت کے درمیان سیکورٹی تعاون بڑھانے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مشترکہ سرحد کے تحفظ کے لئے مشترکہ سریع الحرکت فورس بنانے پر اتفاق ہوا ہے جس کے تحت اس عہد کی نئے سرے سے تجدید کی گئی کہ دونوں ممالک اپنی سر زمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اس سلسلے میں ایک اطلاع یہ ہے کہ دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد پر آہنی باڑھ لگائی جائے گی پاکستان نے جیش عدل اور لشکر خراسان سمیت تمام دہشت گرد گروپوں پر پابندی لگانے کی یقین دہانی کرائی جن پر اس کی سر زمین ایران کے خلاف استعمال کرنے کے الزامات ہیں۔ سیکورٹی تعاون بڑھانے کے لئے دونوں ملکوں کی سیکورٹی ایجنسیوں کے سربراہوں کی ملاقات میں تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور اہم تجاویز زیر غور آئیں۔ اس وقت بارڈر سیکورٹی میکانزم موجود ہے جس کے تحت سرحدوں پر مشترکہ گشت اور نگرانی میں اضافہ کیا جائے گا۔ مشترکہ اعلامیہ میں دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ تجارت اور اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے اور اشیاء کے تبادلے کے لئے کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ صحت اور دفاع کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے جو ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ دونوں ملک سرحدی علاقوں میں مشترکہ صنعتیں لگائیں گے۔ صدر روحانی نے پاکستان کی تیل و گیس کی ضرورت پوری کرنے اور بجلی کی برآمد دس گنا بڑھانے کی پیشکش کی ہے۔ اس حوالے سے دونوں ملکوں نے ضروری اقدامات کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ ایرانی صدر نے اپنی چاہ بہار بندرگاہ کو ریلوے نیٹ ورک کے ذریعے گوادر پورٹ سے ملانے کی پیشکش بھی کی۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اچھے تعلقات دونوں ملکوں کے مفاد میں ہیں لیکن ان کے دشمن بھی ہیں جو ان تعلقات میں رخنہ ڈالنے کے لئے دہشت گردوں کو پیسہ اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے صدر روحانی کو یقین دلایا کہ پاکستان ایران کے خلاف کسی محاذ کا حصہ نہیں بنے گا۔ یہ بھی کہا کہ ہم نئے پاکستان میں ایران جیسا انقلاب لانا چاہتے ہیں جس میں امیر اور غریب کے مابین کوئی تفریق نہ ہو۔ مجموعی طور پر وزیراعظم کا دورہ ایران باہمی مفاد میں بہت کامیاب رہا۔ اس دوران ہونے والے فیصلوں سے دونوں ملکوں کو سلامتی کے علاوہ معاشی استحکام میں بھی مدد ملے گی۔ اس حوالے سے اقتصادی تعاون کی تنظیم جس کے پاکستان، ترکی اور ایران بانی ملک ہیں، کے تحت استنبول سے اسلام آباد تک ریلوے لائن کی بحالی کا منصوبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کی رو سے ایران اور ترکی کے ذریعے یورپ اور چین کے ساتھ بھی ان کے رابطے استوار ہو سکیں گے۔

تازہ ترین