• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس وقت دنیا کے تین ملکوں پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا میں پولیو وائرس موجود ہے جبکہ دیگر ممالک میں اِس کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ 1994میں جب پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز کیا گیا، اُس وقت پاکستان میں پولیو کے 20ہزار سے زائد کیسز موجود تھے۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق اِس وقت پاکستان میں پولیو کے صرف چھ کیسز، ایک پنجاب، ایک سندھ، دو کے پی اور دو فاٹا میں موجود ہیں، جو کہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اِن شاء اللہ بہت جلد پاکستان کا شمار بھی ’پولیو فری ممالک‘ میں ہوگا۔ بچوں کے اردگرد منڈلاتا پولیو وائرس جن علاقوں میں موجود ہے، وہاں والدین کی اکثریت اپنی لاعلمی کی وجہ سے اِس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ پیر کے روز پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر ماشو خیل کے ایک نجی اسکول میں اسکول ٹیچر اور والدین کے مطابق مبینہ طور پر پولیو کے قطرے پلانے کے بعد تقریباً 60بچوں کی حالت بگڑ گئی۔ بچوں کے والدین اور مقامی افراد نے علاقے کے ہیلتھ سنٹر میں گھس کر سنٹر کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ دئیے، لیکن بعد میں ایک وڈیو سامنے آنے کے بعد بچوں کی بے ہوشی کا ڈرامہ بے نقاب ہو گیا، جو کہ دراصل پولیو مہم کیخلاف ایک سازش تھا۔ وڈیو میں موجود شخص بچوں کو اسپتال میں بے ہوشی کا ڈرامہ کرنے کا کہتا ہے، جس پر کمرے میں موجود تمام بچے اپنی اپنی جگہ پر لیٹ جاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ بے ہوش ہوں۔ بعد ازاں وزیر صحت کے پی ہشام انعام اللہ اور وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے انسدادِ پولیو بابر بن عطا نے واضح کیا کہ بچوں کی طبیعت پولیو ویکسین نہیں بلکہ گرمی کی وجہ سے خراب ہوئی، پولیو ویکسین بالکل محفوظ ہے اور اِس سے کسی قسم کے ری ایکشن کا کوئی خطرہ موجود نہیں۔ لہٰذا اب مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے اور میڈیا پر تشہیر کے ذریعے ہر سطح اور ہر جگہ پر والدین کی سوچ بدلنا ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ والدین کی ایک لمحے کی غلطی کی سزا، بچوں کو عمر بھر نہ بھگتنا پڑے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین