• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیب چیئرمین سابق سپریم کورٹ جج جاوید اقبال کے دعوے کے مطابق قوم کے لوٹے ہوئے 303ارب روپے سرکاری خزانے میں جمع کروائے جا چکے، بد عنوان سیاستدان حکومت سے نکال کر جیلوں میں ڈالے جا چکے، لیکن معاشی صورتحال ہے کہ بگڑتی ہی جا رہی ہے۔ اگر ریاستی اداروں اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور جیالوں کا یہ عقیدہ درست تھا کہ بدعنوانی اور رشوت ستانی ملک کو آگے بڑھنے سے روک رہی ہے تو ایک سال میں یہ تو ہوتا کہ پاکستان کی معاشی طاقتوں کا نظام پر اعتماد بڑھتا اور وہ مزید جوش وخروش سے سرمایہ کاری کرتے۔ ظاہر بات ہے کہ ایک سال میں ملک کو جنت میں تو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا لیکن یہ بھی نہیں کہ وہ مزید پیچھے کی طرف جانا شروع ہو جائے، مگر ہو تو یہی رہا ہے اور اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ موجودہ ریاستی نظام کو مرتب کرنے والے اور حکومت کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کے تمام عقیدے اور مفروضے بنیادی طور پر غلط تھے، اِس لئے باوجود تمام ترخلوص کے ملکی نظام منجمد ہو کر رہ گیا ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس سارے معاملے کو سمجھنے والے بھی نہیں ہیں اور باوجود وزارتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے بہتری آنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔

عوام کے مختلف حصوں اور دھڑوں میں غلط قسم کے مخصوص نظریات اور عقیدوں کا غالب آجانا کوئی نئی بات نہیں۔ ستر کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نجی صنعتی شعبے کو قومیانے کا نظریہ بہت مقبول تھا: ہم سب لوگ اِس نظریے سے متفق تھے۔ بھٹو کی حکومت نے کچھ صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا، جس کے منفی نتائج بر آمد ہوئے لیکن عوام کا ایک بہت بڑا حصہ اس، منفی نتیجے کو نظر انداز کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ساتھ جُڑا رہا: شاید اُس کی دوسری وجوہات بھی ہوں گی لیکن یہاں یہ بتانا لازم ہے کہ قومیانے کی پالیسی کے شدید منفی نتائج کا ادراک نہیں ہوا۔ یہی حال پاکستان تحریک انصاف کے بدعنوانی کے بارے میں نظریہ کا ہے کہ اُس کے بے بنیاد ہونے کا ادراک ہی نہیں ہو رہا۔ لگتا یوں ہے کہ غلط خیالات جب ہڈیوں میں رچ بس جاتے ہیں تو سچی بات تسلیم کرنا دور کی بات، سنی ہی نہیں جاتی۔ بقول شاہ حسین:

سچی گل سنیوے کیونکر، کچی ہڈاں وچ رچی

(سچی بات کیسے سنی جائے جب نیم پختہ خیالات ذہن میں سما چکے ہوں)

سچی بات ہے کیا جو سنی نہیں جا رہی اور ایسا کیوں ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ ایک خاص طرح کی بدعنوانی کا معاشی ترقی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور اخلاقی اصولوں پر مالی معاملات نہ کبھی چلے ہیں اور نہ ہی چلیں گے۔ اگر بدعنوانی معاشی ترقی کو ختم کر سکتی ہے تو بنگلہ دیش، ہندوستان اور چین میں بھی کوئی ترقی ہونا ممکن نہ ہوتا: دنیا میں تیز ترین ترقی کرنے والے تینوں ملکوں میں پاکستان سے بڑھ کر بدعنوانیاں ہو رہی ہیں۔ آج کے صنعتی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک بھی جب آج کے ترقی پذیر ملکوں کی منزل سے گزر رہے تھے تو وہاں بھی بدعنوانیوں کا یہی حال تھا۔ پچھلے ہزار سالوں میں جو بھی ترقی ہوئی ہے وہ پاکیزگی کی بجائے لوٹ کھسوٹ کے نظام کی موجودگی میں ہی ہوئی ہے۔

بدعنوانی کو معاشی ترقی کے ساتھ براہ راست جوڑنے کے پس منظر میں پاکستان میں مذہبی نظریات کے غلبے کا بنیادی کردار ہے۔ مذہبی نظریے کی بنیاد یہی تھی کہ اگر صالح افراد پیدا کر دئیے جائیں تو وہ خود ہی معاشی نظام کو راہ راست پر لے آئیں گے اور کسی دوسرے نظام کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پہلو سے جنرل ضیاءالحق کے آنے اور مذہبی نظریات کے ریاست پر غلبہ پا جانے کے بعد سب معاملات ٹھیک ہو جانا چاہئے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا اور سرمایہ داری نظام بڑی تیزی اور شدت کے ساتھ پھیل گیا۔ مشینی پیداواری ڈھنگ نے ملک میں بے پناہ دولت پیدا کردی جس کی وجہ سے انسانوں کی حالت میں کئی گنا بہتری آئی لیکن اُس کیساتھ ساتھ نئی دولت کی تقسیم نے بدعنوانیوں کو بھی جنم دیا: چین، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں بھی یہی ہوا۔ اُس کے باوجود مختلف حکومتوں نے انفرااسٹرکچر کو بہتر بنا کر نئے معاشی نظام کے چلانے میں مدد کی۔ اِس سیاق وسباق میں دیکھا جائے تو بنیادی سوال یہ تھا کہ صنعتی پیداوار میں مزید تیزی کیسے لائی جائے۔ اِس طرح کے فیصلے مادی حالات کی بنیاد پر کئے جانے تھے جبکہ ریاست اور سیاست کے مخصوص دھڑوں نے اُس کا حل اخلاقیات میں ڈھونڈنا شروع کر دیا۔

اگر بغور دیکھا جائے تو ریاست کے علاوہ کچھ صنعتی دھڑوں نے بھی مختلف قوانین بنوا کر اپنے مفادات کا تحفظ کر لیا تھا اور وہ اُسے ایمانداری سے دولت کمانے کا نام دیتے تھے۔ ٹیکس ادا نہ کرنا، پلاٹوں کی باضابطہ تقسیم کو استعمال کرتے ہوئے کروڑ پتی بننا اور ریاست سے سبسڈیاں لینا جائز قرار دے دیا گیا: شوگر ملوں کی اربوں ڈالر کی سبسڈی کو بدعنوانی کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاتا۔ نام نہاد جائز طریقے سے دولت مند بننے والے طبقے نے معاشی ترقی کے سست ہونے کی ذمہ داری چند سیاسی کرداروں پر ڈال کر عوام کے ساتھ فریب کیا اور اصل معاملات سے توجہ ہٹا دی۔ اگر دولت کو مختلف گروہوں کے حوالے سے بھی دیکھیں تو کُل ملا کر سیاستدانوں کا طبقہ سب سے امیروں کی صفوں میں بہت پیچھے نظر آئے گا۔ پاکستان کے ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں میں سیاستدان آٹے میں نمک کے برابر ہوں گے لہٰذا اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جانا چاہئے کہ سیاستدانوں کی صفائی کے ذریعے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ریاست کو چلانے والے حلقوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ معاشی ترقی مادی وسائل کے بہتر استعمال سے ہوتی ہے اور اُس کا اخلاقیات سے کوئی گہرا تعلق نہیں ہے۔

تازہ ترین