• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک خبر کے مطابق پاکستان کی خواتین میں طلاق اور علیحدگی حاصل کرنے کے رحجان میں اضافہ ہوگیا ہے۔ شوہروں کی بدسلوکی اور ازدواجی زندگی میں تلخیوں کے سبب پاکستانی خواتین طلاق لینے پر مجبور ہورہی ہیں۔ اکثر ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ طلاق کے مطالبے پر خواتین کوجان ہی سے مار دیا گیا۔ کشور حسین شادباز کے دارالخلافہ اسلام آباد میں سال 2011ء میں لگ بھگ چھ سو خواتین نے اپنے مجازی خداؤں سے طلاق حاصل کرلی جبکہ سال 2012ء میں خاندان کی عزت وقار و غیرت کے نام پر 1661 خواتین و لڑکیوں کوہلاک کردیا گیا۔ یہاں یہ بات بتانی بھی ضروری ہے کہ اسلام کے قلعہ پاکستان میں 92 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ کسی مظلوم کو طلاق حاصل کرنا ہو تو طویل طویل عدالتی کارروائی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ خواتین کیلئے یہ سیدھا سادا راستہ بھی پرخطر، پرتشدد اور جان جوکھم کا راستہ بنا دیا جاتا ہے تاکہ وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائیں۔
مسلم معاشرہ میں طلاق حاصل کرنا ایک معیوب اور گھٹیا امر تصور ہوتا ہے لیکن جب سے دنیا میں خواتین کی بیداری کی تحریکیں چلنا شروع ہوئی ہیں خواتین کو زیادہ اختیارات ملنے لگے ہیں۔ جن کیلئے وہ ساری عمر ترستی رہی ہیں۔ خواتین اب باشعور ہوتی جارہی ہیں۔ مسلم معاشرے کی عورت کو 14 سو سال سے باورچی خانے میں قید کر دیا گیا تھا لیکن اب ان میں مردوں کی بالادستی کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ اور ان کے جبر و زبردستی سے آزاد ہونے کا رحجان پیدا ہوگیا ہے۔ وہ کہتیں ہیں کہ جب شوہر کی چاہت نہ ہو تو اس کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب عورت کمانے والی ہو تو اس کو ازدواجی زندگی میں صرف شوہر کی چاہت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مالی طور پر وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہیں۔ اس کو چاہئے صرف چاہت و محبت۔ جب چاہت ہی نہیں تو ازدواجی زندگی کیسے خوش و خرم ہوسکتی ہے۔ ایک متوسط طبقے کی خاتون کا کہنا ہے کہ جب ہم بھی ملازمت کر رہی ہیں تو ایثار و قربانی صرف ہم ہی کیوں دیں؟ خدا نے طلاق کی اور خلع کی اجازت دی ہے لیکن بیوی کو زد وکوب کرنے کی اجازت نہیں دی۔ (ہائے بے چاری بھولی اور معصوم عورت) طلاق حاصل کرنے کا رحجان نہ صرف پاکستان میں بلکہ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں میں بھی تیزی سے سر اٹھا رہا ہے تین میں سے ایک والدین کو طلاق کی صورت میں برطانوی سرکاری خزانے سے لاکھوں پونڈ کی رقم خرچ کرنی پرتی ہے کونکہ طلاق کی صورت میں جوڑوں کو مالی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔ اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی جو انگلینڈ میں رہتے ہیں نے دھڑا دھڑا طلاقوں پر زور دے دیا ہے۔ یہ طلاق صرف کاغذات میں ہوتی ہے لیکن مولوی کے نکاح کو بدستور قائم رکھا جاتا ہے برطانیہ کی حکومت ان دنوں اس مسئلے سے نمٹ رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق حقیقی جمہوریت کی طرح حقیقی طلاق کا گراف نہ صرف بیرون ملک بلکہ اندرون ملک بھی بڑی تیزی سے اوپر جارہا ہے جہاں تک طلاق کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے کتاب و سنت کے بعد شریعت کا تیسرا ماخذ ”اجتماع“ ہے اس وقت اہل سنت والجماعت کے پانچ مکاتب فکر ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ حنفی، شافعی، مالکی، خنبلی، سلفی جبکہ اہل تشیع کے یہاں فقہ جعفری پر عمل ہے۔ ان تمام مکاتب فکر کی کتابین چھپی ہوئی موجود ہیں۔ میرے علم کے مطابق ان میں سے کسی کے یہاں بھی طلاق واقع ہونے کیلئے مصالحتی کوشش کا ہونا شرط نہیں ہے۔ کسی بھی کتاب میں طلاق دینے کے سلسلے میں ایسی کسی شرط کا ذکر نہیں ملتا اس لئے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس بارے میں ملت کا اجماع و اتفاق ہے یہاں تک کہ علیحدگی کی صورت میں ثالثی کو بھی ضروری قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ اس کا کوئی ذکر ہی نہیں آیا۔ لہٰذا قیاس کا تقاضہ بھی یہی ٹھہرا کہ طلاق واقع ہونے کیلئے بھی پہلے ثالث کے ذریعے معاملہ طے کرنے کی کوشش کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ قرآنی آیات میں مرد و عورت کا درجہ بتایا گیا ہے کہ مرد صدرِ خاندان ہے اور عورت پر جائز امور میں اس کی اطاعت واجب ہے۔ چونکہ حقوق و فرائض کے بارے میں اکثر نزاع کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے خاص طور پر میاں بیوی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اگر بیوی شوہر کے حقوق کے بارے میں کوتاہی کرے اور اس کی وجہ سے تعلقات میں ناخوشگواری پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو شوہرذاتی طور پر اسکو حل کرنے کی کوشش کرے۔ اور اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں، پندو نصیحت، عارضی طور پر ترکِ تعلقات اور سرز ش اور اگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو سماجی مداخلت یعنی سماج کو چاہئے کہ باہمی جھگڑے طے کرنے کیلئے دونوں خاندانوں کو لے کر اختلاف کو ختم کرانے کی کوشش کرے۔ یاد رہے کہ یہ سب ایک عمومی نصیحت ہے چونکہ ازدواجی رشتہ خاندان کے استحکام کیلئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے اس لئے خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں دراڑ نہیں ہونی چاہئے۔ شوہر بھی ذاتی طور پر اس کیلئے کوشش کرے اور سماج بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے لیکن اس کا تعلق خاص طلاق کے مسئلے سے ہر گز نہیں بلکہ کسی بھی قسم کا اختلاف شوہر وبیوی میں پیدا ہوتو اسے اس طرح سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لئے میرے حساب سے اگر علیحدگی کے بغیر چارہ نہ ہو تو جلد سے جلد اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہئے کہ طلاق کو مشکل بنانا بہ ظاہر عورت کے مفاد میں نظر آتا ہے لیکن یہ اس کے حق میں مضرت رساں عمل ہے۔
غموں کا کوئی بھی موسم نہیں ہے
یہ میلہ سال بھر لگنے لگا ہے
تازہ ترین