• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرینِ فلکیات کی ایک ٹیم نے پہلی مرتبہ بلیک ہول کی تصویر بنا کر کائنات کے پیچیدہ و دقیق ترین اور رمز آمیز اجسام سے متعلق ہماری تفہیم میں ایک انقلاب کی منادی کر دی ہے۔ بلیک ہول کائنات کا ایک ایسا چور دروازہ ہے، جس میں سے نہ روشنی گزر سکتی ہے اور نہ ہی مادّہ راہِ فرار اختیار کر سکتا ہے، لیکن تازہ ترین ادراک، اجرامِ سماوی کا مشاہدہ کرنے والوں کو پہلی بار اس کی دہلیز پر لے آیا ہے۔ اس تاریخی سائنسی پیش رفت کی اہمیت کا اندازہ ای ایچ ٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر اور ماہرِ فلکیات، شیفرڈ ڈولمین کے ان الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’بلیک ہولز کائنات میں موجود پُراسرار ترین اجسام ہیں۔ ہم نے وہ کچھ دیکھا، جسے ہم ناقابلِ دِید خیال کرتے تھے اور ہم نے بلیک ہول کی تصویر بھی بنالی ہے۔‘‘ بلیک ہول تجاذبی یا کششِ ثقل کے طاقت وَر اثرات کا مظاہرہ کرنے والا کائنات کا وہ خطّہ ہے کہ جس کے اندر سے ذرّات اور برقی مقناطیسی شعائیں نہیں گزر سکتیں۔ نظریۂ عمومی اضافیت بتاتا ہے کہ حسبِ ضرورت پُختہ کمیت ایک بلیک ہول بنانے کے لیے زمان و مکان کی ہیئت میں بگاڑ پیدا کرسکتی ہے۔ کائنات کے اس خطّےکی وہ سرحد،جس سے فرار حاصل کرنا ناممکن ہے،ایونٹ ہوریزن کہلاتی ہےاور یہی بلیک ہول کو پار کرنے کی کوشش کرنے والی اشیا کی قسمت کا فیصلہ کرتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ نجمی کمیت کے بلیک ہولز اس وقت وجود میں آتے ہیں کہ جب وسیع و عریض ستارے اپنی گردشِ زندگی کے اختتام پر گرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ وجود میں آنے کے بعد ایک بلیک ہول اپنے گرد و پیش میں موجود ستاروں کے انبار کو جذب کر کے اپنی افزائش جاری رکھتاہے، جب کہ دوسرے ستاروں کے انجذاب اور دیگر بلیک ہولز کے انضمام سے انتہائی جسیم و ضخیم بلیک ہولز وجود میں آتے ہیں اور بیش تر کہکشائوں کے وسط میں ایسے متعدد تاریک گڑھے پائے جاتے ہیں۔

رواں ماہ کے دوسرے ہفتے میں ماہرینِ فلکیات نے ’’میزیئر 87‘‘ نامی کہکشاں میں واقع ایک ایسے ہی وسیع و عریض بلیک ہول کی (اس کانام ’’پوویہی‘‘ رکھا گیا ہے، جس کے معنی ہیں، ’’آراستہ و پیراستہ بے پایاں تاریک مخلوق‘‘ ) پہلی تصویر دُنیا کے سامنے پیش کی۔ یہ کوئی فوٹو گراف نہیں، بلکہ ایونٹ ہوریزن ٹیلی اسکوپ (ای ایچ ٹی) کی جانب سے تخلیق کی گئی ایک تصویر ہے۔ ای ایچ ٹی کو، جو 8زمینی دُور بینوں کا مجموعہ ہے ، خصوصی طور پر بلیک ہول کی تصویریں کھینچنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں ای ایچ ٹی کے ریسرچرز نے انکشاف کیا کہ وہ ایک انتہائی وسیع و عریض بلیک ہول اور اس کے سائے کے پہلے براہِ راست بصری ثبوت کو بے نقاب کرنے میں کام یاب ہو گئے ہیں۔ ’’ دی ایسٹرو فزیکل جرنل لیٹرز‘‘ کے 6صفحات پر مشتمل خصوصی شمارے میں اس اہم پیش رفت کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ تصویر میں بلیک ہول کو ’’میزیئر 87‘‘ نامی کہکشاں کے وسط میں دکھایا گیا ہے۔کم و بیش ایک سو ارب کلومیٹر وسیع و عریض یہ بلیک ہول زمین سے ساڑھے 5کروڑ نوری سال کی دُوری پر واقع ہے اور اس کی کمیت سورج سے ساڑھے 6ارب گُنا زیادہ ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق، بلیک ہول کے مقابلے میں اس کا سایہ قریب ترین ہے اوراس کی سرحداس کے 40ارب کلو میٹر پر پھیلے سائے سے تقریباً 2.5گُنا چھوٹی ہے۔ ایونٹ ہوریزن ٹیلی اسکوپ کی جانب سے منظرِ عام پر لائی گئی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ وسیع و عریض بلیک ہولز اجرامِ فلکی سے نسبتاً چھوٹے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا براہِ راست مشاہدہ ہنوز نا ممکن ہے۔ بلیک ہول کی جسامت اس کی کمیت کے متناسب ہوتی ہے۔ چوں کہ ضخیم کمیت اور نسبتاً قریب ہونے کی وجہ سے مذکورہ بلیک ہول کے زمین سے دکھائی دینے والے وسیع وعریض اجسام میں سے ایک ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی،لہٰذا ای ایچ ٹی نے اسے اپنا ہدف بنایا۔ گرچہ اس عمل میں استعمال ہونے والی دُور بینیں بہ ظاہر ایک دوسرے سے مربوط نہیں، لیکن یہ اپنے اندر ریکارڈ ہونے والی معلومات کو جوہری گھڑیوں سے ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جو ان کے مشاہدات کو ہو بہو ترتیب دیتی ہیں۔ یہ مشاہدات 2017ء کی عالمی مُہم کے دوران 1.3ملی میٹر کی طولِ موج پر جمع کیے گئے تھے۔ ای ایچ ٹی کی ایک دُور بین نے ایک دن میں کم و بیش 350ٹیٹرا بائٹس پر مشتمل ڈیٹا پیش کیا، جسے اعلیٰ کارکردگی کی حامل ہیلیم سے بَھری ہارڈ ڈرائیوز میں ذخیرہ کیا گیا۔ پھر اس مواد کو میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ فار ایسٹرونومی اور ایم آئی ٹی ہیز ٹیک آبزرویٹری میں موجود انتہائی مہارت کے حامل سُپر کمپیوٹرز میں، جنہیں ’’کور ری لیٹرز‘‘ کہا جاتا ہے، منتقل کیا گیا۔ بعد ازاں، اس مواد کو انوکھے تخمینی آلات کی مدد سے بڑی عرق ریزی کے ساتھ ایک تصویر میں تبدیل کیا گیا۔

اس تاریخی پیش رفت سے پورے ایک سو برس قبل دو مُہم جوئوں نے 1919؍ء کے سورج گرہن کا مشاہدہ کرنے کے لیے افریقا کے ساحل اور برازیل میں واقع سوبرال نامی علاقے کا قصد کیا تھا۔ تاہم، اُن کا اصل مقصد آئن اسٹائن کی پیش گوئی کے مطابق روشنی کو سورج کے کنارے کے گرد خم کھاتے دیکھ کر عمومی اضافیت کو پرکھنا تھا۔ ان مشاہدات کی صدائے بازگشت کے طور پر ای ایچ ٹی نے کششِ ثقل سے متعلق ہماری بصیرت کی دوبارہ چھان پھٹک کے لیے اپنی ٹیم کے ارکان کو دنیا کے بعض بلند ترین اور الگ تھلگ ریڈیو تنصیبات پر بھیجا۔ ای ایچ ٹی بے مثال حسّاسیت اور ریزولیوشن کی حامل ایک حقیقی دُور بین بنانے کے لیے دُنیا بَھر میں موجود دُور بینوں کو آپس میں مربوط کرتی ہے۔ برسوں پر محیط بین الاقوامی تعاون کے نتیجے میں سامنے آنے والا یہ منصوبہ ،سائنس دانوں کو آئن اسٹائن کے نظریۂ عمومی اضافیت پیش کیے گئے کائنات کے حد درجہ دُور دراز اجسام کے مطالعے کا ایک نیا انداز فرام کرتا ہے۔ اس بارے میں ای ایچ ٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر، شیفرڈ ایس ڈولمین کا کہنا ہے کہ ’’ ہم نے بلیک ہول کی پہلی تصویر لی ہے اور یہ 200سے زاید ریسرچرز پر مشتمل ٹیم کا ایک غیر معمولی کارنامہ ہے۔‘‘ اس ضمن میں نیدرلینڈز کی ریڈ بائوڈ یونی ورسٹی کی ای ایچ ٹی سائنس کائونسل کے سربراہ، ہینو فالک کا وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’تجاذبی خم اور ایونٹ ہوریزن کے روشنی کو اپنی گرفت میں لینے سے وجود میں آنے والا سایہ نہ صرف ان دل آویز اشیا کی فطرت کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے، بلکہ ہمیں ایم 87کے بلیک ہول کی بے پناہ کمیت ماپنے کا اہل بھی بناتا ہے۔ پیمانہ بندی اور صورت گری کے متعدد طریقوں کے نتیجے میں تاریک مرکزی حصّے کے ساتھ ایک انگوٹھی نما ڈھانچا یا بلیک ہول کا سایہ سامنے آیا، جو ای ایچ ٹی کے متعدد مشاہدات کے دوران قائم رہا۔‘‘ اس بارے میں ای ایچ ٹی کے بورڈ کے رُکن اور ایسٹ ایشین آبزرویٹری کے ڈائریکٹر، پال ٹی پی ہو کہتے ہیں کہ’’ بلیک ہول کے سائے کی تصویر لینے کے بعد ہم اپنے مشاہدات کا موازنہ وسیع و جامع کمپیوٹر ماڈلز سے کر سکتے ہیں، جو خمیدہ خلا کی طبیعات، انتہائی حد تک گرم مادّے اور طاقت وَر مقناطیسی میدان پر مشتمل ہے۔ زیرِ مشاہدہ تصویر کی زیادہ تر خصوصیات حیران کُن حد تک ہماری نظری تفہیم سے ملتی جلتی ہیں اور اس سے ہمارے بلیک ہول کی کمیت سے متعلق تخمینوں کوتقویّت ملتی ہے۔‘‘

ایونٹ ہوریزن ٹیلی اسکوپ کی تخلیق سائنس دانوں کے لیے ایک خوف ناک چیلنج تھا، جس میں دُنیا کے مختلف بلند ترین مقامات پر پہلے سے موجود 8دُور بینوں کو ترقّی یافتہ بنانے اور ایک دوسرے سے مربوط کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ دُوربینیں ہوائی اور میکسیکو کے آتش فشانی پہاڑوں، ایری زونا اور ہسپانوی سیرا نیواڈا کی پہاڑیوں، چلّی کے صحرا اور انٹارکٹیکا میں نصب کی گئی تھیں۔ ای ایچ ٹی نے اپنے مشاہدات کے لیے ’’وی ایل بی آئی‘‘ (ویری لانگ بیس لائن انٹرفیرومیٹری) نامی تیکنیک استعمال کی، جو دُنیا کے مختلف حصّوں میں موجود ٹیلی اسکوپ تنصیبات کی ایک دوسرے سے مطابقت پیدا کرنے اور ایک زمین کی جسامت کی دُوربین بنانے کے لیے ہمارے سیّارے کی گردش سے استفادہ کرتی ہے۔ وی ایل بی آئی کی مدد سے ای ایچ ٹی نے 20مائیکرو آرک سیکنڈز کی زاویہ دار ریزولیوشن حاصل کی۔ یہ ریزولیوشن پیرس کے کسی کیفے میں بیٹھ کر نیویارک میں موجود ایک اخبار پڑھنے کے لیے کافی ہے۔ بلیک ہول کی تصویر بنانے میں الما، اپیکس، دی آئی ریم 30میٹر ٹیلی اسکوپ، دی جیمز کلرک میکسویل ٹیلی اسکوپ، دی لارج ملی میٹر ٹیلی اسکوپ الفونسو سیرانو، دی سب ملی میٹر ایرے، دی سب ملی میٹر ٹیلی اسکوپ اور سائوتھ پول ٹیلی اسکوپ نے حصّہ لیا۔ ای ایچ ٹی کی یہ کام یابی دُنیا بَھر سے تعلق رکھنے والے ریسرچرز کے درمیان تعاون کی ایک مثال ہے، جب کہ ای ایچ ٹی کی تخلیق میں 13اداروں نے شراکت داری کی اور کلیدی معلومات یو ایس نیشنل سائنس فائونڈیشن، یورپین ریسرچ کائونسل اور مشرقی ایشیا کے فنڈ فراہم کرنے والے اداروں نے فراہم کیں۔ اپنے اہم سائنسی کارنامے انجام کو مختصر الفاظ میں بیان کرتے ہوئے ای ایچ ٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر، شیفرڈ ایس ڈولمین کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے وہ حاصل کیا، جسے صرف ایک نسل پہلے ناممکن تصوّر کیا جاتا تھا۔ ٹیکنالوجی کی دُنیا میں اہم دریافتوں، دُنیا کے بہترین ریڈیائی مشاہدات کے درمیان روابط اور اختراعی الگورتھمز نے مل کر بلیک ہولز اور ایونٹ ہوریزن کے حوالے سے ایک بالکل نئی کھڑکی کھول دی ہے۔‘‘

تصویر میں دکھائی دینے والی سُنہری انگوٹھی ایونٹ ہوریزن کہلاتی ہے ۔ یہ دراصل وہ مقام ہے کہ جہاں سے بلیک ہول تک رسائی حاصل کرنے والی کوئی شے اپنے تجاذبی کھنچائو سے فرار حاصل نہ کرنے کی وجہ سے واپس نہیں آسکتی۔ سب سے پہلے اسٹیفن ہاکنگ نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ایونٹ ہوریزن سے گزرنے والی اشیا تجاذبی قوّتوں کی وجہ سے پھیل کر سویّوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور اس عمل کو’’اسپیگٹی فکیشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ ماہرِ فلکیات، ہینو فالک کے مطابق، تصویر میں ایونٹ ہوریزن کے سامنے ایک گڑھے کا نقش دکھائی دے رہا ہے اور یہ چھید تمام اشیا کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ بلیک ہول کے وسط میں تجاذبی ندرت موجود ہوتی ہے، جہاں داخل ہونے والا مادہ پِس کر لاتعداد چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ ای ایچ ٹی پراجیکٹ میں شامل سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ بلیک ہول کی تصویر کی تخلیق بلیک ہولز کی تفہیم کے اعتبار سے ایک بہت اہم پیش رفت ہے۔ اس تصویر سے طبیعات دانوں کو بلیک ہولز کے افعال کو سمجھنے میں مدد ملے گی، جب کہ بالخصوص ایونٹ ہوریزن کی تصویریں عمومی اضافیت کی چھان پھٹک میں اہمیت کی حامل ہیں۔

منصوبے میں اہم کردار اد اکرنے والی خاتون ریسرچر کی تضحیک

29سالہ خاتون ریسرچر، کیٹی بومین نے بلیک ہول کی پہلی تصویر کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تاریخی سائنسی پیش رفت کے فوراً بعد کیٹی کی ایک تصویر منظرِ عام پر آئی، جس میں حیرت اور جوش و ولولے کے ملے جُلے جذبات سے مغلوب خاتون ریسرچر اپنے منہ پہ دونوں ہاتھ رکھے کیمرے کی جانب دیکھ رہی ہیں۔ یہ تصویر سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی، جو درحقیقت نہ صرف ایک اہم سائنسی کارنامے، بلکہ سائنس کے میدان میں خواتین کی کام یابیوں کا منہ بولتا ثبوت تھی، جن کے کردار کو ایک طویل عرصے سے نظر انداز کیے جانے کے علاوہ گھٹایا اور مٹایا بھی جا رہا تھا، لیکن اس کے برعکس خواتین مخالف سوشل میڈیا صارفین نے کیٹی بومین کا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور خاتون ریسرچر کی کردار کُشی کے لیے اُن کے نام پر جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس بنائے گئے۔ ان عاقبت نا اندیش طبقات نے منصوبے میں بومین کے کردار پر سوالات بھی اُٹھائے۔ مثال کے طور پر جب خاتون نے یہ بتایا کہ وہ بلیک ہول کی تصویر بنانے کے لیے اَن تھک محنت کرنے والی ٹیم کا حصّہ تھیں، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ عورت ہونے کے ناتے صرف عوام کی توجّہ حاصل کرنے کے لیے ایسا کہہ رہی ہیں، جب کہ سارا کم مَردوں نے کیا۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور سرگرم افراد نے اس منفی طرزِ عمل پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے اعلیٰ قابلیت و مہارت کی حامل خواتین کی حوصلہ شکنی کے مترادف قرار دیا۔

فورک اور موزوں ترین نام نے ماہرینِ فلکیات کو حیران کردیا

ایک اہم تجربے کے نتیجے میں خاکے کی شکل میں پہلی بار نظر آنے والے بلیک ہول کا نام امریکی ریاست، ہوائی کی یونی ورسٹی آف ہوائی ہلو سے وابستہ لسانیات کے پروفیسر لیری کیمورا نے ’’پوویہی‘‘ رکھا ہے، جس کے معنی ہیں، ’’آراستہ و پیراستہ بے پایاں تاریک مخلوق۔‘‘ مذکورہ لفظ اٹھارہویں صدی میں تخلیق کیے گئے ہوائین گیت،’’ کومولیپو‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔ پوویہی میں ’’پو‘‘ بے پایاں تاریک مخلوق، جب کہ ’’ویہی‘‘ تزئین و آرایش‘‘ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس بارے میں پروفیسر کیمورا کا کہنا ہے کہ ’’ بلیک ہول کی سب سے پہلی سائنسی تصدیق کو ہوائین نام دینے کا استحقاق میرے اور میرے ہوائین حسب و نسب کے لیے بہت معنی خیز ہے۔‘‘ اس ضمن میں جیمز کلرک میکسویل ٹیلی اسکوپ کی ڈپٹی ڈائریکٹر، جیسیکا ڈیمپسی کہتی ہیں کہ’’ بلیک ہول کو ہوائین نام دینے کا حق اس لیے بھی بنتا ہے کہ منصوبے میں شامل 8میں سے دو دُوربینیں ہوائی میں موجود ہیں ۔ جب مَیں نے اتنی جلدی یہ نام سُنا، تو مارے حیرت کے اپنی کُرسی سے گرتے گرتے بچی اور یہی حال دوسرے سائنس دانوں کا بھی تھا۔ ‘‘ خاتون ماہرِ فلکیات کا مزید کہنا تھا کہ ’’مَیں زمین سے ساڑھے 5کروڑ نوری سال کی دُوری پر واقع ایک وسیع و عریض بلیک ہول کی تصویر بنانے والے 200ریسرچرز میں شامل تھی اور پروفیسر کیمورا نے اس کی سائنسی توضیح کے لیے بہترین نام پیش کیا۔ ہم نے اُسی منظر کو بیان کیا، جو ہم نے دیکھا کہ ایک تاریک گڑھے کے دہانے چمک رہے تھے، جب کہ اس کے گرد اندھیرا تھا ،تو میرے خیال میں اس سے بہتر اس کا کوئی اور نام نہیں ہو سکتاتھا۔‘‘ 

تازہ ترین