• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے آپ میں پھنسی، مری مُکی اپوزیشن، محنت، کوشش سے بونگیاں مارتی حکومت، رُلتے عوام، ملکی مسائل کیا، 22کروڑ کے مصائب کیا، سیاست کن چکروں میں چکر و چکر، کابینہ میں تبدیلیاں کیا ہوئیں، اپوزیشن کے ٹھٹھے، مذاق، جگتیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں، اگر اسٹار کھلاڑی پرفارم نہ کر رہے ہوں تو کیا ٹیم میں تبدیلیاں نہیں ہونا چاہئیں، کیا خراب پرفارمنس پر تبدیلی جرم، لیکن یہ آقا، غلام کا معاشرہ، یہاں نوکر، مالک کی سیاست، لہٰذا یوں شور مچا ہوا جیسے کوئی انہونی ہو گئی، بلاول فرما رہے، اسد عمر و دیگر کا جانا، عمران خان کی ناکامی، وزیراعظم استعفیٰ دیں، کوئی پوچھے 5سال آپ کے والد محترم کی حکومت رہی، میمو گیٹ، سوئس اکاؤنٹس خط لکھنا، رینٹل پاور پلانٹس اسکینڈل، کیا کیا نہ ہوا، کسی ناکامی پر توفیق ہوئی کہ کسی کو فارغ کر دیتے، کسی ایشو پر والد محترم سے کہا، آپ ٹیم کے کپتان، ذمہ داری قبول کریں، استعفیٰ دیں۔

یہ چھوڑیں، سندھ میں 11سال سے حکومت، لاڑکانہ گٹر، کراچی کوڑا کرکٹ کا ڈھیر، تھر موت کی وادی، قبرستان تک بک گئے، ہر محکمے میں کرپشن کی الف لیلوی داستانیں، بیڈ گورننس کے ریکارڈ ٹوٹ گئے، جے آئی ٹی منی لانڈرنگ رپورٹ نے سب پول کھول دیئے، کبھی مراد علی شاہ سے کہا، آپ وزیراعلیٰ، ٹیم کپتان، لہٰذا استعفیٰ دیں، اپنے کسی ایک اسد عمر کو بھی خراب پرفارمنس پر گھر بھیجا، آپ نے تو مرتضیٰ جتوئی کو اس اعتراف کے باوجود کہ ’’اب کرپشن کی ہماری باری ہے‘‘ چند دن وزارت لیکر پھر کام پر لگا دیا، ڈاکٹر عاصم پر الزامات، الٹا اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین بنا دیا، شرجیل میمن پر الزامات، دوبارہ ٹکٹ دیدیا، پرفارمنس ایوارڈ الگ، آغا سرا ج درانی کو نیب نے گرفتار کیا، وہ نیب قید خانے سے سیدھا اسپیکر کی کرسی پر، کیا یہی بھٹوازم، کیا یہی بی بی کا مشن، کیا یہی جمہوریت، اتنا ہی کر لیتے، جب تک یہ سب الزامات سے کلیئر نہ ہوتے، تب تک ہی انہیں عہدوں سے ہٹا دیتے۔

بندہ پوچھے اٹھارہویں ترمیم کے بعد وسائل کی بھرمار، کیا تیر مار لئے، کیا سندھ میں دودھ، شہد کی نہریں بہہ رہیں، عوام انسانی فضلہ بھرا پانی پی رہے، اصلی اسکولوں سے زیادہ گھوسٹ اسکول، اسپتالوں میں ڈاکٹر مل جائے تو دوائی نہیں، دوائی مل جائے تو بیڈ نہیں اور سندھ میں 90فیصد جگہوں پر ڈاکٹر، دوائی، بیڈ تینوں نہیں، بھلا ایسا ملک، قوم، معاشرہ کہاں ملے گا جہاں کارکردگی صفر، مینڈیٹ 100فیصد، مطلب کم نہ وی کرو، حکومت فیر وی مل جائے۔

بس تقریریں، تقریریں اور تقریریں، انگریزی گھوٹے والی تقریریں، زخمی اردو والی تقریریں، عمل سے خالی تقریریں، رٹی رٹائی تقریریں، سیکھی سکھائی تقریریں، تقریری چورن، تقریری ہاجمولے، یہ بھی سنتے جائیے، بلاول کہے ’’حکومت نے حفیظ شیخ ہمارا وزیر خزانہ لے لیا‘‘، آپ کا وزیر خزانہ، آپ اور مسلم لیگ کا تو 17دن وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی رہا، کیا اسے بھی اپنا وزیر خزانہ ہی مانتے ہیں، آپ کا وزیر خزانہ تو شوکت ترین بھی رہا جو آپ سے پہلے مشرف حکومت کا عہدیدار، پھر آپ یہ بھول گئے، حفیظ شیخ آپ کا وزیر خزانہ بننے سے پہلے پرویز مشرف کا وزیر نجکاری تھا، مطلب آپ نے اسے وزیر خزانہ بنایا جو مشرف کا وزیر۔

یہ بلاول، باقی اپوزیشن کو دیکھیں تو بیٹے کو تقریروں پر لگاکر زرداری صاحب ابھی تک کسی ’معجزے‘ کے انتظار میں، نواز شریف کا انقلاب، ووٹ کو عزت دو گہری، میٹھی نیند سو رہا ،شہباز شریف کی ’مفاہمتیں‘ جاری، البتہ مولانا فضل الرحمٰن نئے الیکشن تک پہنچ چکے، ’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘ والے مولانا صاحب کو اقتدار سے نکلے 8ماہ ہو گئے، مولانا اور اقتدار کے بنا 8ماہ، ہمت، حوصلے کو سلام، اوپر سے ان گزرے 8ماہ میں مولانا کا بھاگ بھاگ وزن کم ہو گیا، بات ہے کہ بن ہی نہیں رہی، زرداری صاحب کو منائیں تو نواز شریف صاحب ناراض، نواز شریف مان جائیں تو زرداری صاحب ناراض، مولانا سے یہ نواز، زرداری برتاؤ دیکھ کر یاد آئے، ایک ماں ٹرین میں بچے کو حلوہ کھلانے کی کوشش کرتے ہوئے مسلسل کہے جا رہی تھی، بیٹا حلوہ کھا لو، ورنہ سامنے بیٹھے مولانا صاحب کو دیدوں گی، بچہ حلوہ کھا نہیں رہا تھا، ماں کھلانے پر بضد، حلوہ کھا لو، ورنہ مولانا کو دیدوں گی، کافی دیر جب یہی چلتا رہا تو مولانا صاحب بول پڑے ’’بہن جو فیصلہ کرنا جلدی کرو، میں حلوے کے چکر میں ایک اسٹیشن آگے آ گیا ہوں‘‘ یہی نہیں نواز، زرداری آپس کا برتاؤ دیکھ کر وہ شوہر یاد آئے جس سے اس کی بیگم نے جب کہا ’’آپ کا فلاں دوست پاگل لڑکی سے شادی کر رہا ہے، اسے روکتے کیوں نہیں‘‘ تو شوہر بیزاری سے بولا ’’کیوں روکوں، منحوس نے مجھے روکا تھا، میری دفعہ تو بڑے بھنگڑے ڈال رہا تھا‘‘، لیکن مولانا صاحب سے یہی کہنا، آپ لگے رہیں، ہو سکتا ہے اپنے اپنے وقتوں میں ایک دوسرے کی تکلیفوں پر بھنگڑے ڈالنے والے آپ کی کوششوں پر کسی دن مل کر بھنگڑے ڈالنے پر راضی ہو جائیں۔

8ماہ کی حکومت کا سن لیں،کوئی دن ایسا نہیں، جب کوئی بونگی نہ ماری ہو، یہ تو سنا تھا کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بیٹھ کر بانسری بجا رہا تھا، اب یہ دیکھ بھی رہے، ہر وزارت میں ایک نیرو بیٹھا، عوام مہنگائی، بیروزگاری، ٹیکسوں کی آگ میں جھلس رہے، ’تبدیلی نیرو‘ بانسریاں بجا رہے، ان کے وعدے، دعوے، نعرے اور منصوبہ بندی ایسی کہ پرانے وقتوں کا وہ وزیر باتدبیر یاد آئے، جس کی مسلسل نالائقی، نااہلی، جھوٹو ں سے تنگ آکر ایک دن جب بادشاہ نے اس کا سرقلم کرنے کا حکم دیا تو ہاتھ باندھ کر بولا ’’آپ کا حکم سر آنکھوں پر، بس آخری خواہش یہ، صرف دو سال دیدیں، میں نے ایک علم سیکھ لیا، آپ کے گھوڑے کو اُڑنا سکھانا چاہتا ہوں‘‘ بادشاہ نے اس عجیب و غریب منطق کے باوجود آخری خواہش سمجھ کر نہ صرف دو سال دیدیئے بلکہ اپنا گھوڑا بھی حوالے کر دیا‘‘ رات کو جب یہ گھر آیا تو بیگم نے کہا ’’نہ تم نے کوئی علم سیکھا ہوا نہ گھوڑے نے اڑنا، یہ کیا کر بیٹھے‘‘، وزیر باتدبیر بڑے اطمینان سے بولا ’’پہلی بات ابھی تو جان بچی، پھر دو سال مل گئے، اب ہو سکتا ہے ان دو سالوں میں مجھے طبعی موت آ جائے، ہو سکتا ہے بادشاہ مر جائے، ہو سکتا ہے گھوڑا مرجائے اور ہو سکتا ہے کہ گھوڑا اڑنے لگے، لہٰذا فکر نہ کرو، دو سال کافی مدت، کچھ نہ کچھ ہو جائے گا‘‘، اب ایک طرف پوری تبدیلی سرکار ’ہوسکتا ہے‘ پر چل رہی، جبکہ دوسری طرف پوری اپوزیشن کسی ’ہونی انہونی‘ کے انتظار میں، رہ گئے عوام تو کل بھی رُل رہے تھے آج بھی رُل رہے۔

تازہ ترین