• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے وزیراعظم دورۂ ایران مکمل کر کے لوٹے ہیں اور اب چین جا رہے ہیں۔ ایران میں اُنہوں نے جو کچھ کہا، اُس پر ہماری سیاست و صحافت میں خواہ مخواہ ایک طوفان برپا ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف پر یہ اعتراض کیا جاتا تھا کہ وہ فی البدیہہ بولنے کے بجائے اپنے نوٹس یا پرچیوں کو دیکھ کر گفتگو کرتے ہیں جبکہ عمران خان بغیر نوٹس یا پرچیوں کے جس نوع کی گفتگو کر جاتے ہیں، اُس پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہوئی ہے۔ ماشاء اللہ شوق تو اُنہیں سیاست کے علاوہ تاریخ، جغرافیہ بلکہ مذہب پر بولنے کا بھی ہے مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ انسان جس موضوع پر بھی گفتگو کرے، کم از کم اُس کے متعلق کچھ علم یا معلومات بھی تو رکھتا ہو، بالخصوص جب بندہ اتنےاہم منصب پر فائز ہو اور بات ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسیوں پر کر رہا ہو۔

درویش گزشتہ دو دہائیوں سے موصوف کی تقاریر اور گفتگو سنتا چلا آرہا ہے، اِس دوران براہِ راست ون ٹو ون انٹرویوز کے مواقع بھی ملے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلند بانگ دعوے اپنی جگہ مگر مطالعہ کی کمی کے باعث یا پھر سیاسی تجربات سے نہ گزرنے کی وجہ سے گفتگو میں سطحی پن سنائی دیا، وہی روایتی خیالات جو ہمارے انوکھے نصاب نے نو نہالوں کے اذہان میں انڈیل رکھے ہیں۔

ویسے نقشے کے حوالے سے ہمارے میڈیا والے عمران خان کے پیچھے ناجائز طور پر پڑ گئے ہیں، آخر بندے کی زبان پھسل بھی جاتی ہے۔ اگر اُنہوں نے جرمنی اور جاپان کی مشترکہ سرحدوں پر مشترکہ انڈسٹری لگانے کا کہہ ہی دیا ہے تو چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے سے گریز کیا جانا چاہئے، بات اتنی سی تھی کہ اُنہیں جرمنی اور فرانس کہنا تھا مگر غلطی سے فرانس کی جگہ جاپان بول گئے اور پھر اُسی کو دہراتے بھی رہے۔ اُن کے حواریوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ وہ جس نوع کی توضیحات پیش کر رہے ہیں، یہ عذرِ گناہ بدتر از گناہ والی بات ہے۔ اُنہیں چاہئے تھا کہ وہ خود معذرت کر لیتے اور یہ وعدہ کرتے کہ آئندہ میں لکھے ہوئے نوٹس ساتھ رکھوں گا تاکہ غلطی کا احتمال نہ رہے، فی البدیہہ غلط سلط بولنے سے بہتر ہے کہ بندہ پرچیاں دیکھ لے۔

کچھ عرصہ قبل اُنہوں نے ایسی ہی رواروی میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے نبی کا تو تاریخ میں بہت ذکر ہے جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تاریخ میں کوئی ذکر نہیں، اِس پر بھی بہت لے دے ہوئی اور ہونا بھی چاہئے تھی۔ وزیراعظم کو اتنے حساس موضوع کے حوالے سے ہوش سے کام لینا چاہئے تھا۔ اِسی طرح جب وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر لب کشائی فرماتے ہیں تو اقبال اور قائداعظم کے متعلق بھی ایسی گفتگو کر جاتے ہیں جس پر سوالات اٹھتے ہیں۔ افغانستان کے اندرونی معاملات کے متعلق اُنہوں نے پچھلے دِنوں جو کچھ فرمایا اُس پر ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا۔ کبھی جدید جمہوری مملکت، کبھی ریاست مدینہ اور اب اُن کے نئے پاکستان کو ایران جیسے خمینی انقلاب کی تلاش ہے کہیں تو یکسوئی دکھائیں۔

جب وہ بحیثیت سربراہِ حکومت غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو وہاں جس طرح اپنے حریف قومی سیاستدانوں کو چور اور ڈاکو کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، جن لوگوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کر رہے ہوتے ہیں، اُنہی کے سامنے کرپشن کے قصے شروع کر دیتے ہیں۔ اِس سے وہ لوگ کیسے آپ کی پیشکش کے قائل ہوں گے۔ آپ خود عوامی سطح پر یہ مان چکے ہیں کہ فلاں فلاں ممالک سے ہمیں جو قرضے ملے ہیں یہ ملکی اداروں کی وجہ سے ملے ہیں۔

اب آپ نے اپنے تازہ بیان میں ایرانی قیادت اور میڈیا کے سامنے یہ کہا ہے کہ ایران میں جو دہشت گردی ہوئی، اُس میں پاکستانی سرزمین استعمال ہوتی رہی۔ اِس سے پہلے بھی آپ یہ فرما چکے ہیں کہ ماضی میں پاکستان نے جہادی تنظیمیں بنائی تھیں تب ہمیں ان کی ضرورت تھی، اب ضرورت نہیں۔ باتیں آپ کی دونوں درست ہیں مگر منظور پشتین کی طرح شاید لب و لہجہ درست نہیں اور پھر آپ جو مارجن اپنے لئے مانگتے ہیں، دوسرے قومی سیاستدانوں کے لئے بھی وہی مارجن رکھ لیا کریں۔ اِسی نوع کی بات جب اس سے بھی نرم الفاظ میں نواز شریف نے کہی تھی تو آپ نے وطن دشمنی اور غداری جیسے کون کون سے القابات سے اُنہیں نہیں نوازا تھا۔ تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی،وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی۔

یہاں بہت سے تلخ حقائق ہیں جنہیں جانتے اور مانتے سبھی ہیں مگر ایک طبقہ ہے جو اپنے تئیں شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار خیال کرتے ہوئے اُسے حب الوطنی کے ساتھ جوڑنے کی بے سود کاوشیں کرتا رہتا ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے قابل اور ہوشیار ہیں۔حالانکہ آج کی دنیا سے ہمارا کیا دھرا کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔

اس وقت ایران کے لئے آنے والے حالات بہت خطرناک ہیں، امریکہ اور ایک عرب ملک اِس کے خلاف گھیرا تنگ کرتے ہوئے اسے دبوچنے کے چکر میں ہیں، پاسدارانِ انقلاب کو اُنہوں نے دہشت گرد گروہ ڈکلیئر کر دیا ہے۔ چین، جاپان، انڈیا اور ترکی جیسے ممالک کو ایرانی تجارتی پابندیوں میں امریکہ نے جو چھوٹ دی ہوئی تھی وہ واپس لے لی گئی ہے۔ عرب ملک علانیہ یہ کہہ رہا ہے کہ ایران کے خلاف بین الاقوامی دباؤ مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہم خود بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہماری 14ہلاکتوں کے لئے ایرانی سر زمین استعمال ہوئی ہے، یہ سب کچھ عالمی منظر نامے میں واضح ہے، آپ یہ یقین دہانی کروا کے آئے ہیں کہ ہم ایسے کسی عالمی محاذ کا حصہ نہیں بنیں گے تو کیا ہم واقعی اس عہد پر کار بند رہ سکیں گے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین