• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اسلامی نظریئے کا مذاق اڑایا جارہا ہے، مولانا عبدالاعلیٰ درانی

بریڈفورڈ(پ ر) مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کے سیکرٹری اطلاعات مولاناحافظ عبدالاعلیٰ درانی نے کہا ہے کہ ملک میں معصوم بچیوں کے ساتھ ظلم وزیادتی اور قتل و غارت کے سیلاب کاایک بڑاسبب میڈیاکی بے لگامی اورفحاشی وعریانی کو رواج دینے،اور قوم کی اخلاقی تربیت کو بالکل نظر اندازکرنابھی ہے، صدرمملکت، وزیراعظم پاکستان،چیف جسٹس، وزارت اطلاعات، وزارت ثقافت اور پیمراکو پاکستانی میڈیاپر بے حیائی کاسخت اور فوری نوٹس لینا چاہئے، کیونکہ مملکت خداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی اقدارکی پاسبانی قانونی اورشرعی ذمہ داری ہے، جس کے بارے روز محشر ان کو جوابدہ ہونا ہے، مگر موجودہ حالات میں لگتاہے کہ یہ مملکت خدادادپاکستان نہیں کوئی غیراسلامی اور مادر پدر آزادملک ہے، انہوں نے کہااس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم کیاہواتھا لیکن افسوس کہ اسی نظریے کا سب سے زیادہ مذاق اسی ملک میں اڑایاجاتاہے، کلچر ،ثقافت، انٹرٹینمنٹ ، لبرل و ملحدانہ نظریات و اقدار کو جتنا پرموٹ پاکستان میں کیاگیاہے، شاید ہی کسی اورملک میں کیاجاتاہو، وہ کیابابرکت دورتھا جب صبح ٹی وی کاآغاز اللہ کے نام سے اور تلاوت قرآن سے ہوتاتھا، ایک مسلمان کی صبح کی شروعات نمازفجرکی ادائیگی اورتلاوت قرآن سے ہوناایک اسلامی کلچراور فطری تقاضاہے، لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کاسیاسی، ثقافتی، مذہبی اورسماجی قبلہ قطعی طور پر بدل چکا ہے، مولاناعبدالاعلیٰ نے پیمراسے سوال کیاکہ وہ اپنے مطلب کی ذرا ذرا سی خلاف ورزیوں پر فوراً نوٹس لیتے ہوئے چینلزپر بھاری بھاری جرمانے کرتاہے ،لیکن اسلامی کلچرکی تباہی کااسے ذرا بھی احساس نہیں ہے، اسلامی اقدار کی خلاف ورزیوں اور قوم کی بچیوں کوڈانس کی تربیت دے کر انہیں بے آبروئی کے راستوں پر چلنے والی بنانے پر ان کے کان کھڑے کیوں نہیں ہوتےَ، آوارہ منش اینکروں کانوٹس کیوں نہیں لیاجاتا، اصولی طور پرٹی وی پر پیش ہونے والی خواتین کوڈوپٹہ اوڑھنااور اسلامی لباس کو اختیار کرنا قانونی طور پرضروری ہوناچاہئے لیکن اس کے برعکس ہمارے ٹی وی پر خواتین کو شوپیس کے طور پرپیش کیاجارہاہے، اور ان کے بدن کے ہرزاویے کو نمایاں کیاجاتاہے، جس سے فحاشی و عریانی اور ذہنی آوارگی کوفروغ مل رہاہے، مولانا عبدالاعلیٰ نے کہاایک اسلامی ملک کواسلامی کلچرکانمائندہ ہونا چاہئے اورجہاں انٹرٹینمنٹ کے کئی پروگرام منعقد ہوتے ہیں وہاں قرآن وحدیث حفظ کرنے اورقرأت و تجویدکے مقابلے بھی ہونے چاہئیں جہاں دیگر فنکاروں کوپرموٹ کیاجاتاہے وہاں کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ کورواج دینا بھی میڈیاکی اخلاقی اورثقافتی ذمہ داری ہے، جس کی طرف کسی وزیراعظم ،صدر مملکت ، چیف جسٹس، پیمرااوروزارت ثقافت واطلاعات کی توجہ کی بھی ضرورت ہے، ان وزارتوں اورذمہ اداروں میں دینی مزاج کے افسران بھی متعین ہونے چاہئیں، اس پہلو کو نظرانداز کرنے کانتیجہ ہے کہ پاکستانی میڈیا بے لگام ہوچکاہے اورکوئی نہیں کہہ سکتاکہ یہ ’’اسلام کے قلعہ پاکستان ‘‘ کامیڈیا ہے ،کتنے شرم کی بات ہے کہ آج تک نمازوں کے اوقات میں اذان اورکاروباربندکرنے کے لئے بھی کوئی اسلامی ضابطہ نافذتو کیا مرتب بھی نہیں کیا جاسکاجس کے نتیجے میں قوم کااخلاق وکردار شتر بے مہار ہوچکاہے اورزینب واسماء جیسی معصوم بچیوں کی عصت دری اورسفاکانہ قتل ایک عام بات ہوچکی ہے، اس لئے مملکت کے ذمہ داروں کواپنی قانونی واخلاقی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے اورمباحثاتی پروگراموں فلموں اور ڈراموں میں اسلامی اخلاق وکردار اوردینی ثقافت کونافذکرناچاہئے ورنہ اس کے نتائج موجودہ گراوٹ سے بھی زیادہ مکروہ ہوں گے انہوں نے قوم کے سیاسی سماجی لیڈروں اورثقافتی معلموں سے بھی اپیل کی کہ وہ قوم کے اخلاقی زوال کی اس بڑی وجہ کی طرف بھی توجہ دیں اور وزیراعظم کی ایک ذراسی بات کافوراً اثر ہوسکتاہے تواس پہلو کوکیوں نظرانداز کیاجارہاہے ۔
تازہ ترین