• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:پرویز فتح…برمنگھم
کلونیل دور (نو آبادیاتی دور) کی تاریخ مظلوم و محکوم اقوام کے خلاف جبر و استبداد، قتل و غارت، پھانسیوں، تشدد اور کالے پانیوں کی سزائوں سے بھری پڑی ہے۔ ایسے وحشیانہ نظام سامراج ممالک کی جانب سے اپنے قبضوں کو برقرار رکھنے، محکوم ممالک کے عوام سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس اور مالیہ وصول کرنے، سامراجی قبضوں کے خلاف مقامی لوگوں کی بغاوتوں کو کچلنے اور اپنی دہشت کو برقرار رکھنے کیلئے کئے جاتے تھے۔کلونیل ایمپائراور سامراج کے الفاظ کو بعض دفع ایک ہی مفہوم کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ دو مختلف الفاظ ہیں اس کے باوجود کہ دونوں کا مقصد دوسری اقوام کو محکوم بنانے اور ان کے وسائل کی لوٹ ہے۔ کلونیل یا نو آبادیاتی نظام ایک قوم پر دوسری قوم کا قبضہ ہے جبکہ سامراج دوسری اقوام پر براہ راست یا بالواسطہ سیاسی یا معاشی کنٹرول ہے جو کلونیل دور کے خاتمہ کے بعد بھی اپنی پوری قوت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔خواہ یہ قبضہ دوسرے ممالک کی معیشت کو قرضوں میں جکڑ کر کنٹرول حاصل کرکے ہو یا براہ راست جنگ مسلط کرکے ہو، اپنی مرضی کی اور اپنے مفادات کے تابع پپٹ حکومت بناوا کر ہو یا پھر مقامی بیورو کریسی اور فوج سے بغاوت کروا کر کیا جائے۔ مغربی کلونیل ازم ایک سیاسی و معاشی بالادستی کا ایک ایسا عمل ہے جس میں مغربی اقوام نے دنیا کے ایک بڑے حصے کو دریافت کرکے کنٹرول کیا اور ان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا،جدید کلونیلزم کا دور 1500ء میں شروع ہوا تھا جب مغربی ممالک نے افریقی ممالک کے گردو نواح سمندری راستوں کو تلاش کیا تھا، جس سے مغربی ممالک کی طاقت کا مرکز میڈٹرینیں سے تبدیل ہوکر اٹلانٹک کا سمندر بن گیا۔ یورپین اقوام نے اپنی توسیع کرتے ہوئے دنیا بھر میں غیر ترقی یافتہ ممالک کو اپنی کالونیاں بنا لیا اور ان ممالک میں اپنے تجارتی اور ثقافتی اداروں کا جال بچھا دیا۔ کلونیل دور میں تیزی 1870ء کی دہائی میں آئی جب یورپین ممالک نے وسیع پیمانے پر دیگر ممالک بالخصوص افریقی ممالک پر قبضے کرکے ان پر کنٹرول حاصل کرلیا اور وہاں کے عوام کو غلام بنالیا۔ جلد ہی ان قبضوں کا دائرہ ایشیاء اور مشرق وسطیٰ تک پھیل گیا۔ برصغیر ہندوستان کے زیادہ حصوں پر تو برطانوی سامراج نے 1757ءکی جنگ پلاسی جیت کر قبضہ کرلیا تھا جس میں بنگال، بہار اور آڑیسہ سمیت ہندوستان کے بڑے حصے شامل تھے۔ البتہ اپنی تمام تر معاشی و فوجی قوت کے باوجود پنجاب پر 1844ء تک قبضہ نہ کرپایا۔پہلے صنعتی انقلاب کے بعد یورپین ممالک نے اپنی صنعتی اشیاء کی فروخت کیلئے منڈیوں،سستی لیبر اور قدرتی وسائل کی لوٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑی تیز رفتاری سے یہ قبضے کئے 1870ء اور 1914ء کے درمیان یورپ دوسرے صنعتی انقلاب اور نئی سائنسی دریافتیں کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس نے سائنس، ٹیکنالوجی اور صنعت کی شکل تبدیل کردی،جس سے معاشی ترقی میں تیزی آگئی۔ ان تبدیلیوں نے یورپ میں نئی معیشتوں کو ابھارا اور ان ممالک نے ترقی پذیر غریب ممالک کے قدرتی وسائل کی لوٹ کو بھی بڑھا کر کئی گنا کردیا۔ 1976ء میں افریقی ممالک اپنے کل رقبے کے 90فیصد کو کنٹرول کرتے تھے لیکن صرف 24برس بعد1900میں یورپین ممالک افریقہ کے 90فیصد کو کنٹرول کرنے لگے تھے۔1914ءتک برطانیہ دنیا کے سب سے بڑے رقبے اور عوام پر قبضہ کرکے اپنی کالونیاں بنا چکا تھا۔ یہ وہی دور ہے جب یہ کہا جاتا تھا کہ برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا۔ لیکن اس سب کی ایک قیمت بھی ہوتی ہے، جس نے نو آبادیاتی دنیا پر گہرے اثرات بھی ڈالے۔ سامراجی ممالک میں دوسرے ممالک قبضوں اور اپنی کالونیاں بنانےکا مقابلہ شروع ہوگیا اور ان ممالک میں اسی کو ہی طاقت کا معیار سمجھا جانے لگا۔ یہی وہ حالات تھے جو1914ء میں عالمی امن کیلئے خطرہ بن گئے اور پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوگیا۔ مشرقی اقوام پر سامراجی غلبے نے انہیں سماجی اور معاشی طورپر ترقی نہ کرنے دی سامراجی ممالک کی جانب سے اپنی کالونیوں کو صنعتی ترقی سے باز رکھنے کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ ان ممالک میں مزدور طبقہ پیدا نہ ہوسکا جو ان سامراجی ممالک کے خلاف ایک منظم تحریک پیدا کرنے کا باعث بن پاتا۔ سامراجی غلبہ میں رہنے والے ممالک میں مقامی دستکاری اور ہنر سے بننے والی اشیاء اورچھوٹی صنعت کو منظم انداز میں تباہ کردیا گیا تھا تاکہ قابض صنعت یافتہ ممالک کی صنعتی اشیاء کیلئے منڈی پیدا کی جاسکے۔ اس کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ مقامی آبادی دیہی علاقوں میں زراعت سے وابسطہ ہونے پر مجبور ہوگئی تاکہ خوراک اور قابض ملک کی صنعت کیلئے خام مال تیار کرسکیں۔ یہ جو کچھ مراعات یافتہ طبقات کہتے ہیں کہ برطانیہ نے برصغیر میں نہری نظام اور ریلوے ترقی کے نظریئے سے بنائی۔ وہ سراسر غلط ہے یہ سب برطانوی ٹیکسٹائل اور دیگر انڈسٹری کیلئے خام مال تیار کرکے ریلوے کے ذریعے برطانیہ تک پہنچانے کیلئے بنائی گئی تھیں جن کی بدولت برطانیہ اس مقامی تک پہنچ پایا۔ اس طرح غیر ملکی تسلط نے برصغیر میں سماجی قوتوں کی ایک قدرتی طریقے سے ترقی کا راستہ روکے رکھا۔ اس لئے برصغیر کے عوام کے لئے سامراجی تسلط سے آزادی اور عوامی انقلاب ہی واحد راستہ رہ گیا تھا جس کیلئے و قفے وقفے سے بغاوتیں بھی ہوتی رہیں۔ برطانوی حکمرانوں کو صرف اور صرف اس بات سے دلچسپی تھی کہ برصغیر سے زیادہ سے زیادہ دولت لوٹ سکے اور اپنے ملک میں سرمایہ داری نظام کو ترقی اور صنعتوں کا جال بچھا سکے برصغیر ہندوستان آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک تھا اور اس نے برطانوی سامراج کی صنعتی پیداوار کیلئے نہ صرف ایک بڑی منڈی کاکام کیا بلکہ بڑی مقدار میں خام مال بھی
فراہم کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نقد رقم جو ٹیکس اور لگان کی صورت میں وصول کئے جاتے تھے اور جنگوں میں جھونکنے کیلئے سپاہی فراہم کئے جو لاکھوں کی تعداد میں برطانوی سامراج کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان کی بازی ہار گئے ہندوستان سے صرف کپاس 70سے 100 لاکھ پونڈ سالانہ کی جاتی تھی جو آج کے دور میں ٹریلین پونڈز کی بنتی ہے اور اسی کی بدولت برطانوی ٹیکسٹائل دنیا میں اول سمجھی جاتی تھی۔ مجموعی طور پر سالانہ 6ملین کا زرعی خام مال اور سستی لیبرو سپاہی برطانیہ جاتے تھے۔ 1857ءکی جنگ آزادی میں مجموعی طور پر 10ملین سے زائد شہری شہید کردیئے گئے۔ انہیں گولی مار دی گئی، پھانسی دے دی گئی یا پھر توپوں کے آگے کھڑا کرکے اڑا دیا گیا۔ قید اورکالے پانیوں کی سزائوں کا آج تک کوئی اندازہ ہی نہیں لگا سکا۔ اس جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد برصغیر ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی کی غلامی سے نکل کر براہ راست برطانوی سامراج کی حکمرانی میں آگیا اس کے بعد سامراجی معاشی نظام کے تسلط میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری غلامی،غربت، جہالت، پسماندگی میں بھی اضافہ ہوگیا۔ پہلی عالمی جنگ نے زیر قبضہ ملک کے عوام کو تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی کو ناکام بنادیا کیونکہ سامراجی ممالک نےجنگ میں تباہ ہونے والی اپنی معیشت کو سہارا دینا تھا۔ زیر قبضہ ممالک میں بڑے پیمانے پر ٹیکس اور آبیانہ بڑھا دیئے گئے تاکہ یورپ اور مشرق وسطیٰ میں برطانیہ کی جنگی حکمت عملی کیلئے مالی وسائل پیدا کئے جاسکیں۔ اس سے افراط زر میں بہت اضافہ ہوگیا اور خوراک کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ عام لوگوں کا معیار زندگی بری طرح متاثرہوا۔ جنگ نے برصغیر میں طبقاتی تفریق کو بھی بہت تیز کردیا۔ کاروباری طبقہ نے جنگ کے بعد اشیاء کی قلت، بڑھتی ہوئی ڈیمانڈ، غیر ملکی اشیاء کے ساتھ مقابلے میں کمی، تنخواہوں اورقوت خرید میں کمی نے انہیں اپنی مرضی کی قیمتیں کرکے بے پناہ منافع حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔سامراج تیسری دنیا کے ممالک اور ان کے عوام کے استحصال کیلئے وہاں کی تمام فالٹ لائنز کا استعمال کرتا ہے اورجان بوجھ کروہاں کے عوام کو اس کے تحت تقسیم کرتا ہے فوجی مداخلتوں کے علاوہ سامراج کا بنیادی ہتھیار ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں بالخصوص عوام کے خلاف مذہبی انتہاپسند قوتوں کا استعمال، لسانی تفریق کو ہوا دے کر اسے ہتھیار کے طور پر استعمال اور ایسے ہی دوسرے ہتھکنڈے ہیں، جن سے حکومتوں کوکمزور کرکے بلیک میل اورعوام کو تقسیم کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر جب ایران میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کروائی جارہی تھی تو سامراج نے آیت اللہ کاشانی کی مدد کی تھی۔ ابھی تھوڑا ہی عرصہ پہلے عراق میں شیعہ بنیاد پرستی کو ہوا دے کر استعمال کیا گیا تاکہ صدام حسین کی حمایت کو کنٹرول کیا جاسکے۔ سامراج نے افغانستان میں مذہبی بنیاد پرست گروپوں کا اتحاد بنوا کر پیپلزڈیموکریٹک پارٹی افغانستان اور سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا۔ اور جب ان میں سے کچھ مذہبی بنیاد پرست گروپ خود سامراجی ممالک کے لئے مشکلات پیدا کرنا شروع کردیں تو اس کے جواب میں وہ ایک نئی مذہبی انتہا پسند قوت کو تلاش یا پھر پیدا کردیتے ہیں۔ یہ بات اب کسی سے چھپی ہوئی نہیں رہی کہ اسلامک اسٹیٹ (ISIS) جس کا آج کل ہم سب بہت ذکر سنتے ہیں سابق امریکی سیکرٹری خارجہ کونڈو لیزا رائس کےآشیرباد سے قائم ہوئی تھی تاکہ شیعہ بنیاد پرستی کی قوت کا اندازہ لگایا جاسکے 1917ءمیں روس میں برپا ہونے والے سوشلسٹ انقلاب نے کلونیل دور کے خاتمے کی طرف سفر میں اہم کردار ادا کیا 100کے قریب سابقہ کالونیوں، جنہوں نے 1945ء اور 1969ء کے درمیان آزادی حاصل کی ان کا مجموعی کریڈٹ سوویت یونین کو جاتا ہے اس نے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے ساتھ ساتھ سیاسی حقوق کے حصول کیلئے عوامی شعور کو اجاگر کیا جس سے انسانی حقوق کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ انقلاب نے تمام مقبوضہ ممالک میں قومی آزادی کی تحریکوں کو ایک نئی جلا بخشی۔جنگ کے فوراً بعد سامراج نے اپنے کلونیل غلبے کو جاری رکھنے کیلئے ایک نئی کوشش کی اور ایک عالمی فارمولا اقوام متحدہ کے دائرہ کار کے اندر متعارف کروانے کی کوشش کی۔ جس کا نام ’’ٹرسٹ شپ‘‘ تھا۔ لیکن یہ فارمولا کھوکھلا ہونے کی وجہ سے نئے ابھرتے ہوئے حالات میں قابل عمل نہ بن پایا۔ لہٰذا دوسری عالمی جنگ کے بعد قومی آزادی کی تحریکیں اس قدر طاقتور ہوگئیں کہ بہت سی سابق کالونیوں نے غاصب طاقتوں سے آزادی حاصل کرلی اور اس صورت حال نے سامراجی غلبے اور کلونیل دور کے خاتمے پر مہرلگا دی۔ اس طرح کلونیل دور اور براہ راست قبضہ کا دور تو ختم ہوگیا لیکن سامراج ایک نئی شکل میں اور ایک نئی قوت کے ساتھ سامنے آیا جسے ہم جدید نو آبادیاتی نظام کہتے ہیں۔ اس کا ہمارے ممالک کی اشرافیہ اور رولنگ الیٹ کے ساتھ گہرا رشتہ ہے۔ اس جدید نوآبادیاتی نظام کے خاتمے اور عوامی جمہوری فلاحی ریاست کے قیام کیلئے جدوجہد جاری رہے گی۔
تازہ ترین