• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر طاہر القادری پر تنقید بہت آسان ہے۔ کوئی انہیں چابی والا بابا قرار دے رہا ہے تو کوئی انہیں کسی امریکی ڈرامے کا اردو ترجمہ قرار دے رہا ہے، کوئی انہیں جرنیلوں کی ناتمام خواہشات کا ٹوٹا ہوا آئینہ کہتا ہے اور کوئی انہیں سیاسی مداری قرار دیکر اپنے غصے کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا مذاق اڑانا اس لئے بھی بہت آسان ہے کہ ان کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہے۔ انہوں نے 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان لاہور کے سائے تلے لاکھوں کا مجمع اکٹھا کر لیا لیکن اس مجمعے کی طاقت کو میڈیا پر دباؤ کے لئے استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے میڈیا میں اپنی جگہ بنانے کیلئے اشتہارات کا سہارا لیا۔ سیاست بچاؤ یا ریاست بچاؤ کا نعرہ لگایا اور سیاستدانوں کی اکثریت کو اپنا دشمن بنا لیا۔ ڈاکٹر صاحب پر تنقید اس لئے بھی آسان ہے کہ ان کے مریدین نہ تو کسی اخبار یا ٹی وی چینل کے دفتر پر حملہ کرتے ہیں نہ ہی کیبل آپریٹرز پر دباؤ ڈال کر کسی چینل کی نشریات بند کرتے ہیں۔ 23 دسمبر کے جلسے سے پہلے اور بعد میں کچھ اہل فکر و دانش نے خالصتاً نظریاتی اور سیاسی بنیادوں پر ڈاکٹر طاہر القادری کو آڑے ہاتھوں لیا کیونکہ ان کا نعرہ صاف پتہ دے رہا تھا کہ وہ غیر سیاسی قوتوں کو سیاست کا گند صاف کرنے کیلئے اقتدار پر قبضے کی دعوت گناہ دے رہے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب پر تنقید کرنے والوں میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہو گئے جو صرف تحریک طالبان پاکستان کو خوش کرنا چاہتے تھے۔ میں خود بہت گناہ گار انسان ہوں اس لئے جب کسی دوسرے کی عیب جوئی کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ سے ڈر لگتا ہے لیکن جب میں اپنے ایک بہت پرانے مہربان علامہ صاحب کو مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ڈاکٹر طاہر القادری پر الزامات لگاتے دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے وہ صحافی دوست یاد آنے لگتے ہیں جو ان علامہ صاحب کی شام کی محفلوں میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ علامہ صاحب شام کو میرے لبرل اور سیکولر دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر طالبان کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور دوپہر کو طالبان کے حامیوں کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں۔ میں جب اس علامہ صاحب کو ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف آگ برساتا دیکھتا ہوں تو میری نظریں جھک جاتی ہیں اور سوچتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب پر تنقید کتنی آسان اور اس علامہ صاحب پر تنقید کتنی مشکل ہے۔ اگر اس علامہ پر تنقید کروں تو کئی ساتھی اینکر، کئی نامور کالم نگار، کئی علماء اور کچھ کالعدم تنظیموں کے عہدیدار بھی مجھ سے ناراض ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری پر تنقید صرف ان علماء کرام کا حق ہے جن کا اپنا دامن صاف ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو بذاتِ خود لفظ ”مولانا“ سے کافی الرجی محسوس ہوتی ہے لیکن ان کے قول وفعل سے مولانا صاحبان کی ساکھ سب سے زیادہ مجروح ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مانیں نہ مانیں لوگ انہیں مولانا سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے انتخابات سے صرف چند ہفتے قبل اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر کے ہم جیسے سیاسی تجزیہ نگاروں کو حیران و پریشان کر دیا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ جس حکومت پر وہ تنقید کر رہے تھے اسی حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے ان کی حمائت کا اعلان کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب کو کراچی بلا کر ایم کیو ایم کے جلسے سے خطاب بھی کروایا گیا اور جب لانگ مارچ کے لئے روانگی کا وقت آیا تو ایم کیو ایم نے مارچ میں شرکت سے معذوری کر لی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب بھی آخری وقت میں لانگ مارچ ختم کر نے کا اعلان کر دیں گے لیکن وہ ڈٹے رہے۔ انہوں نے 14 جنوری کو لاہور سے سفر کا آغاز کیا اور 15 جنوری کو اسلام آباد پہنچ کر دم لیا۔ اسلام آباد پہنچ کر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے سامنے 40 لاکھ لوگ موجود ہیں لیکن میڈیا نے ان کے حامیوں کی تعداد کو 40 ہزار کے آس پاس قرار دیا۔ 15 جنوری کی دوپہر تک ڈی چوک اسلام آباد کے سامنے موجود مظاہرین کی تعداد 20 ہزار سے بھی کم تھی اور ڈاکٹر صاحب رو رو کر ان مظاہرین کو واسطے دے رہے تھے کہ میرا ساتھ چھوڑ کر نہ جانا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک بلٹ پروف بنکر میں بیٹھ کر حکمرانوں کو فرعون، نمرود اور یزید قرار دیا اور کہا کہ وہ اس کربلا میں حسین کے راستے پر چلنے آئے ہیں۔
کربلائے اسلام آباد کی بلٹ پروف اسٹیج سے حُسینیت کا نعرہ لگانے والے اس ماڈرن مجاہد کے اکثر مطالبات غیر آئینی تھے لیکن وہ دعویٰ کر رہا تھا کہ وہ آئین اور جمہوریت کے خلاف نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ کا یہ حکم مایوسی کے اندھیروں میں ڈاکٹر صاحب کے لئے امید کی کرن بن گیا اور وہ اپنی تقریر ادھوری چھوڑ کر سپریم کورٹ کے حق میں نعرے لگوانے لگے۔ وہ یہ بھول گئے کہ سپریم کورٹ جس آئین و قانون کی بالادستی چاہتی ہے اس آئین و قانون میں ڈاکٹر صاحب کے مطالبات پر عملدرآمد کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب سپریم کورٹ کے فیصلے کی آڑ لے کر اپنی ناکامی چھپانے کی کوشش کر رہے تھے اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے مخالفین نے فوری طور پر عدلیہ کے فیصلے اور طاہر القادری کے مطالبات میں تعلق تلاش کرنا شروع کر دیا۔ یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی ٹائمنگ کا فائدہ طاہر القادری نے اٹھانے کی کوشش کی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طاہر القادری الیکشن کمیشن کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے اور اسی سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کے بروقت انعقاد کی ہدائت کر دی۔ سپریم کورٹ طاہر القادری کے غیر آئینی ایجنڈے کو فروغ دینے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ کیا وزیر داخلہ رحمان ملک انکار کر سکتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری کو اسلام آباد کے ڈی چوک تک پہنچانے میں ان کے پرانے مہربانوں چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے اہم کردار ادا کیا؟ جو لوگ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے دوران وزیراعظم کو گرفتار کرنے کا حکم دے کر جمہوریت کو کمزور کیا وہ بتائیں کہ جب اسی وزیراعظم کے اتحادی الطاف حسین اور چودھری شجاعت حسین اور ڈپٹی وزیراعظم پرویز الٰہی نے ڈاکٹر طاہر القادری کی حمائت کی تو کیا جمہوریت مضبوط ہو رہی تھی؟
ڈاکٹر طاہر القادری پر تنقید آسان ہے اور سپریم کورٹ پر بھی تنقید آسان ہے کیونکہ دونوں کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہے لیکن دونوں میں ایک فرق ہے۔ ڈاکٹر صاحب دنیا کی ہر قسم کی دولت بشمول ڈالروں سے مالا مال ہیں جبکہ سپریم کورٹ ڈالر مافیا کی نظروں میں کھٹک رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی ڈاکٹر صاحب کی حمائت کر رہے ہیں اور فوجی مداخلت کے ذریعہ سیاسی تبدیلی کے اشارے دے رہے ہیں جبکہ سپریم کورٹ فوجی مداخلت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سپریم کورٹ نے غیر ملکی شہریت رکھنے والوں کے لئے پارلیمنٹ کی رکنیت ناممکن بنا دی اور اسی لئے ایم کیو ایم نے ڈاکٹر صاحب کی حمائت کی۔ ڈاکٹر صاحب کو ان کے مخالفین علامہ کینیڈی کہہ کر چھیڑتے ہیں۔ علامہ کینیڈی صرف اور صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تو پھر علامہ کینیڈی اور سپریم کورٹ میں گٹھ جوڑ کیسے ممکن ہے؟ ڈاکٹر صاحب نے بھی 16 جنوری کو ایک اور طویل خطاب میں اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ انہیں سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے خلاف کیس کی سماعت کا کوئی علم نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحب تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ لے کر اسلام آباد آئے۔ ان کے عقیدت مندوں کی ایک بڑی اکثریت مجھے سادہ دل اور مخلص نظر آئی لیکن تبدیلی اور انقلاب کے لئے ان کے قائد کا راستہ غلط ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو چاہئے کہ سب سے پہلے منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے سیاست بند کریں۔ کینیڈین شہریت چھوڑ کر پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کریں، اکثریت حاصل کریں اور اسمبلیوں میں قانون سازی کے ذریعے تبدیلی لائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہ سادہ اور مخلص لوگوں کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلامی سزاؤں میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے وہ جانتے ہیں مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کیا سزا ہے وہ اپنا درست کر لیں تو علامہ کینیڈی کہلوانے سے بچ سکتے ہیں۔
تازہ ترین