• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ ڈائری:اختر مینگل کی گفتگو،حکومتی بنچوں پرسراسیمگی عیاں تھی

اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار)اختر مینگل کی گفتگو سے حکومتی بنچوں پر سراسیمگی عیاں تھی، تہران میں دیاگیا بیان طویل عرصے تک پاکستان اور خان کا تعاقب کرتا رہےگا۔ یہ بھی کم افسوسناک نہیں کہ عمران خان کو اس کے برےاثرات کا ادراک ہی نہیں، قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کےسابق سربراہ اور پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنما سید خورشید احمد شاہ نے وزیراعظم عمران خان کے تہران میں دیئے گئے بیان کو ایک مرتبہ پھر اٹھاکر مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف آئین کی دفعہ چھ کے تحت مقدمہ چلایا جائے ان کا استدلال تھا کہ پاکستان کے خلاف یہ الزام اس کا بدترین دشمن بھارت عائدکرتا آیا ہے کہ دہشت گرد اس کی سرزمین میں تربیت حاصل کرکے اور امداد حاصل کرکے پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ خورشید شاہ کی تقریرکے تھوڑی ہی دیر بعد وزیراعظم کے دفتر سے بیان جاری ہوا کہ عمران خان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیاجارہاہے۔ کمان سے نکلے ہوئے اس تیر کو آسانی سے و اپس نہیں لیا جاسکے گا اس کے برے اثرات سے ملک عزیز کو محفوظ رکھنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ حیرت تو اس امر پر ہوتی ہے کہ وزیراعظم کے ہمسفر باصلاحیت خارجہ سیکریٹری سہیل محمود اور بعض دیگر اہم ارکان وفد بھی انہیں بیان کی مضرت رسانی سے آگاہ نہیں کرسکے۔ خورشید احمد شاہ کے بیان کے بعد جاری شدہ وضاحت میں کسی ٹھوس پیرائے میں ثابت نہیں کیا جاسکا کہ وزیراعظم کے بیان میں وہ ’’الزام‘‘ موجود نہیں جو پاکستان پر عائد کیا گیا تھا۔تہران میں دیا گیا یہ بیان طویل عرصے تک پاکستان اور خان کا تعاقب کرتا رہےگا۔ یہ بھی کم افسوسناک نہیں کہ عمران خان کو اس کے برےاثرات کا ادراک ہی نہیں۔ وفاقی کابینہ سے خارج شدہ سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے قومی اسمبلی میں اپنے دھواں دارانہ از خطابت کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی علیحدگی کے بعد پہلی مرتبہ ایوان میں اظہار خیال کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کوئی بھی حکومت اپنے وزیر خزانہ کو نکال دے تو نہ صرف حکومت نا اہل نہیں ہوتی بلکہ وزیر خزانہ بھی نالائق نہیں ہوتا۔ اگر وہ یہ نہ کہیں تو پھرکیا کہیں انہیں اس تقریر کے لئے بطور خاص کراچی سے لایا گیا تھا جس کے فوری بعد وہ مفقودالخبر ہوگئے۔ اسد عمر نے کمال جرات سے وہ اعتراضات کئے جن کا حوالہ دیکر ان کی وزارت سے بے دخلی کا جواز پیش کیا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے معیشت کی زبوں حالی کا رونا رویا حالانکہ گزشتہ ہفتے تک ملک کے ہمہ مقتدر وزیرخزانہ تھے۔ حکومت اور وزیر خزانہ کی ناکامی، نا اہلی اور نالائقی کا تعین وہ حالات کرتےہیں جن میں اس وزیر کو اقتدار کی دہلیز سے باہر کیا جاتا ہے اس وقت معاشرے کاہر طبقہ اور بالخصوص عوام مہنگائی اور معاشی ابتری پر ماتم کناں ہیں حکومت ابھی نویں مہینے میں داخل ہوئی ہے اور اقتصادی حالات کی خرابی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے عوام حکومت کی کسی یقین دہانی پر بھروسہ کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں ایسے حالات میں وزیر خزانہ کی برطرفی دراصل حکومت کو برطرفی سے بچانے کی کوشش کے مترادف ہوتی ہے ماضی میں وزرائے خزانہ کی تبدیلی کی پشت پر سیاسی وجوہ کارفرما ہوتی تھیں یا پھر وہ کسی خصوص شعبے میں ہدف پورا کرنے میں ناکام رہے بعض صورتوں میں بہتر معیشت دان میسر آگیا تو وزیر خزانہ تبدیل ہوگئے حالیہ تبدیلی تو انقلابی تباہی کا شاخسانہ تھی یہ الگ بات ہے کہ خرابی دور ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل جو حکومتی حلیف ہیں اور کہا جاتا ہےکہ ان کی پارٹی کےووٹ بھی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان فرق ہیں بدھ کو انہوں نے اپنے مطالبات کے لئے حکومت کو الٹی میٹم دیدیا ہے اختر مینگل نے اپنے صوبے کے مطالبات تسلیم کرانے کے لئے وفاقی حکومت سے کوئی وزارت یا دوسرا سیاسی فائدہ اٹھانے کا تقاضا نہیں کیا۔ اختر مینگل کی گفتگو سے حکومتی بنچوں پر سراسیمگی عیاں تھی۔
تازہ ترین