• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد رضوان سعید نعمانی

کرۂ ارض کاباسی انسان ہو یاجن ،روز مرہ زندگی میں کس چیز کو اہمیت دے،کس کام کو دوسرے کاموں پر ترجیح دے،گوناگوں مسائل میں کس کو اوّلیت کادرجہ دے اور کس کو مؤخر کرے؟ یہ جاننے کےلیے بہترین معیار یہ ہے کہ ہرکام کو اتنی ہی اہمیت دے، جتنی دستورِ حیات’’ قرآنِ کریم‘‘نے دی ہے،اپنے روز مرہ مسائل کی فہرست میں تقدیم وتاخیر کاپیمانہ قرآن کریم کے اہتمام کو قراردے۔

دستورِ حیات ’’قرآن کریم‘‘نے جن احکام ومسائل کو مختلف سورتوں اور آیات میں باربار اہتمام کے ساتھ امرونہی،وعدہ اور وعید کی صورت میں زوردےکربیان کیا ہے،انسانوں اورجنوں پر ایسے احکامات وامورکواپنی سوچ ،طورطریقےاور مستقبل کی تعمیر ومنصوبہ سازی میں پیش نظر رکھنااور بہرصورت ہرچیز پر ان کو مقدّم کرناضروری ہے۔مثال کے طورپر اللہ کی ذات پر ایمان ،انبیاء کی رسالت کی تصدیق ،آخرت پر یقینِ محکم ،یوم قیامت دنیا میں کیے اعمال پر سزاوجزا،جنت اورجہنم کے برحق ہونے کااعتراف کرنا۔

اسی طرح عبادات وشعائر دینیہ کے بنیادی ارکان مثلاً نماز قائم کرنا،زکوٰۃ اداکرنا،روزے رکھنا،حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنا،اللہ جل شانہ کےذکر،تسبیح وتحمید ، استغفار و توبہ سے زبان کوتررکھنا،توکل علیٰ اللہ ،اللہ کی رحمت کی امید اور اس کے عذاب کاڈر،اس کی نعمتوں کی سپاسی ،آزمائش پر صبر اور اس کے علاوہ دیگروہ عبادات جن کا دل اورباطن سے تعلق ہے،نیز اللہ کی طرف سے ان پر مرتّب ہونے والے بلنددرجات کاادراک۔

ایسے ہی باعثِ فضیلت اعلیٰ اخلاق اور عمدہ صفات جیسے :صدق،امانت ،میانہ روی ،پاک دامنی،شرم وحیاء،عاجزی وانکساری، جودوسخاء،مؤمنین کےساتھ نرمی کامعاملہ، جب کہ کفارکےحق میں سختی،کمزوروں کے ساتھ نرم دلی سے پیش آنا،والدین سے اچھاسلوک کرنا،رشتے داری نبھانا،پڑوسیوں کےاعزازواکرام کااہتمام ،مسکین ،یتیم اورمسافرکی دیکھ بھال کرنا۔ یہ سب اللہ رب العزت کی طرف سے ایسی ہدایات ہیں ،جسے قرآن کریم نے بے حد اہمیت دی ہے،لہٰذایہ کام ہماری روزمرہ اسلامی زندگی کےجزوِلازم اور نصب العین ہونے چاہییں۔اس کے بالمقابل کچھ امور ایسے ہیں، جنہیںقرآن کریم نے کم اہمیت دی ہے،ہمیں بھی مبالغہ آرائی سے کنارہ کرتے ہوئے اسی قدر ان کااہتمام کرناچاہیے ۔

مذکورہ بالامعیار’’ اہم اورغیر اہم قرآن کریم کی روشنی میں‘‘ایسامعیارہے جس میں غلطی کے امکان کاشائبہ تک نہیں ۔ہمارے موجودہ معاشرے میں بہت سی ایسی چیزیں سرایت کرچکی ہیں جن کامذکورہ معیار پر اسلامی زندگی سے ہزارواں حصہ بھی وابستہ نہیں۔

اسلامی طرززندگی کایہ ایسامعیار ہے جس میں دورتک غلطی کاامکان نہیں ،کیونکہ قرآنِ کریم ملتِ اسلامیہ کاسرچشمہ ،حقیقی مصدر اوربنیادی ستون ہےاورسنت رسول ﷺ اس کاآئینہ ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے (سورۃ الاسراء:9)

(ترجمہ)تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک روشنی آئی ہے اور ایک ایسی کتاب جو حق کو واضح کردینے والی ہے۔ جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں اور انہیں اپنے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے، اور انہیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔ (سورۃ المائدۃ:15-16)

(ترجمہ) اور ہم نے تم پر یہ کتاب اتار دی ہے، تاکہ وہ ہر بات کھول کھول کر بیان کردے، اور مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور خوش خبری کا سامان ہو (سورۃ النحل:89)

قصہ مختصر یہ ہے کہ دین کے مضبوط بنیادوں پر قائم ہونے کےلیے تمام ضروری اصولوں کو قرآن کریم نے کھول کھول کربیان کردیاہے۔اسلامی طرزمعاشرت میں جن اصول کلیہ کی ضرورت ہے، وہ سب قرآن کریم سے بلاواسطہ یابالواسطہ ماخوذ ہیں۔قرآن کریم کی اسی منفرد خوبی کی وجہ سے خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ اورترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس ؓنے فرمایا:اگرمیرے اونٹ کی رسّی گم ہوجائے تو اس کاحل بھی میں قرآن کریم کی روشنی میں پالوں گا۔(روح المعانی) بقول شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ؒ ؎

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار

تازہ ترین