• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹرسعید احمد صدیقی

ہادی برحق نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز باجماعت کا نظام قائم فرمایا اور ہر مسلمان کے لیے جو بیمار یا کسی وجہ سے معذور نہ ہو جماعت سے نماز ادا کرنا لازمی قرار دیا اور اس کا سب سے بڑا سبب اورحکمت یہ ہے کہ اس کے ذریعے اہل ایمان کا روزانہ پانچ مرتبہ احتساب ہوتا اور تجربے اور مشاہدے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ باجماعت نماز کی وجہ سے وہ لوگ بھی پانچوں وقت کی نماز پابندی سے ادا کرتے ہیں جو عزیمت کی کمی اور جذبے کی کمزوری کی وجہ سے انفرادی طور پر کبھی بھی ایسی پابندی نہیں کرسکتے جو باجماعت نماز کی وجہ سے ہوتی ہے۔

نماز باجماعت کا نظام امت کی دینی تعلیم و تربیت اور ایک دوسرے کے احوال سے باخبری کا ایک ایسا غیر رسمی اور بے تکلف انتظام بھی ہے جس کا کوئی بدل نہیں اور ایک مسلمان کی زندگی میں ترتیب، نظم و ضبط، پابندی وقت اور اسلامی و معاشرتی اقدار خوب خوب نظر آتی ہیں۔باجماعت نماز کی وجہ سے مسجد میں عبادت و انابت اور توجہ الیٰ اللہ و دعوت صالحہ کی جو فضاقائم ہوتی ہے اور زندہ قلوب پر جو اس کے اثرات پڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مختلف الحال بندوں کے قلوب ایک ساتھ متوجہ ہونے کی وجہ سے آسمانی رحمتوں کا جو نزول ہوتا ہے اور جماعت میں اللہ کے مقرب فرشتوں کی شرکت کی وجہ سے ان کی معیت ورفاقت نصیب ہوتی ہے ،یہ سب باجماعت کے نظام کی وجہ سے ہے۔باجماعت نماز کے ذریعے ہی امت میں اجتماعیت پیدا ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے احوال سے باخبر رہتے ہیں ایک دوسرے کے دکھ درد میںشریک ہوتے ہیں جس سے دینی اخوت اور محبت ایمانی کا پورا اظہار و استحکام ہوتا ہے، جس کا شریعت ہم سے تقاضا کرتی ہے اور قرآن و حدیث میں جابجا اس کی فضیلت ہے۔

ہمارے پیارے نبیﷺ نے کبھی بھی نماز باجماعت کو ترک نہیں فرمایا، یہاں تک کہ حالت مرض میں جب آپؐ کوخودچلنے کی قوت نہیں تھی تو دو آدمیوں کے سہارے مسجد تشریف لے گئے اور جماعت سے نماز پڑھی، جماعت چھوڑنے والے پر رحمت عالمﷺ کو سخت غصہ آتا تھا اور جماعت کے چھوڑ دینے پر سزا دینے کو آپؐ کاجی چاہتا تھا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جماعت نماز کی تکمیل میں اصل درجہ کی شرط ہے۔ شریعت محمدی میں جماعت کا بہت زیادہ اہتمام کیا گیا اور ہونا بھی چاہیے کیوں کہ نماز جیسی عبادت کی شان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس چیز سے اس کی تکمیل ہو وہ بھی اعلیٰ درجے پر پہنچادی جائے۔

جماعت کی فضیلت سے متعلق اجر و ثواب اور اس کے چھوڑنے پر کتنی شدیدوعید ہے اس کا اندازہ ہم آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے ان ارشادات گرامی سے لگا سکتے ہیں۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجے زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ (بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی)آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’آدمی کی وہ نماز جو جماعت سے پڑھی گئی ہو، اس نمازسے جو گھر میں پڑھ لی ہو یا بازار میں پڑھ لی ہو ،پچیس درجہ المضاعفت ہوتی ہے اور بات یہ ہے کہ آدمی جب وضو کرتاہے اور وضو کو کمال درجہ تک پہنچا دیتا ہے پھر مسجد کی طرف صرف نماز کے ارادہ سے چلتا ہے کوئی اور ارادہ اس کے ساتھ شامل نہیں ہوتا تو جو قدم بھی رکھتا ہے اس کی وجہ سے ایک نیکی بڑھ جاتی ہے اور ایک خطا معاف ہوجاتی ہے اور پھر جب نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو جب تک وہ باوضو رہے گا، فرشتے اس کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور آدمی جب تک نماز کے انتظار میں رہتا ہے وہ نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے۔(بخاری مسلم، ابودائود، ترمذی، ابن ماجہ)

آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’جو شخص چالیس دن اخلاص کے ساتھ اس طرح نماز پڑھے جماعت کے ساتھ کہ تکبیر اولیٰ فوت نہ ہو تو اس کو دو پروانے ملتے ہیں۔ ایک پروانہ جہنم سے چھٹکارے کا دوسرا انفاق سے بری ہونے کا‘‘ (الترمذی، البیہقی، ابن عساکر)آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جو لوگ اندھیرے میں مسجدوں میں بکثرت جاتے رہتے ہیں، انہیں قیامت کے دن کے پورے پورے نور کی خوش خبری سنا دو۔‘‘ (ابن ماجہ، حاکم)آپﷺ نے ارشاد فرمایا، جو لوگ کثرت سے مسجد میں جمع رہتے ہوں، وہ مسجد کے کھونٹے میں فرشتے ان کے ہم نشیں ہوتے ہیں۔ اگر وہ بیمار ہوجائیں تو فرشتے ان کی عیادت کرتے ہیں اور وہ کسی کام کو جائیں تو فرشتے ان کی اعانت کرتے ہیں۔ (حاکم)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ارشاد فرماتے ہیں ’’جو شخص یہ چاہے کہ کل قیامت کے دن اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں مسلمان بن کر حاضر ہو ،وہ ان نمازوں کو ایسی جگہ ادا کرنے کا اہتمام کرے جہاں اذان ہوتی ہے (یعنی مسجد میں) اس لیے کہ حق تعالیٰ شانہ نے تمہارے نبیﷺ کے لیے ایسی سنتیں جاری فرمائی ہیں جو سراسر ہدایت ہیں، انہیں میں سے یہ جماعت کی نمازیںبھی ہیں، اگر تم لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے، جیسا کہ فلاں شخص پڑھتا ہے تو نبیؐ کی سنت چھوڑنے والے ہو گے اور یہ سمجھ لو کہ اگر نبیؐ کی سنت کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجائو گے اور جو شخص اچھی طرح وضو کرے، اس کے بعد مسجد کی طرف جائے تو ہرقدم پر ایک نیکی لکھی جائے گی اور ایک ایک درجہ بلند ہوگا اور ایک ایک خطا معاف ہوگی۔ (مسلم، ابودائود، نسائی، ابن ماجہ)

جہاں اللہ تعالیٰ نے باجماعت نماز پربڑے انعامات اور فضیلت کا وعدہ فرمایا ہے، وہاں جماعت چھوڑنے پر ناراضی اور عتاب کا بھی اعلان فرمایا۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اذان کی آواز سنے اور بلا کسی عذر کے نماز کو نہ جائے (وہیں پڑھے) تو وہ نماز قبول نہیں ہوتی۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ عذر سے کیا مرادہے،ارشاد ہوا کہ مرض ہو یا کوئی خوف ہو۔‘‘(ابو دائود، ابن ماجہ)آپﷺ نے ارشاد فرمایا! سراسر ظلم اور کفر ہے اور نفاق ہے اس شخص کا فعل جو اللہ کے منادی (یعنی مؤذن) کی آواز سنے اور نماز کو نہ جائے۔ (احمد، طبرانی)آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ’’میرا دل چاہتا ہے کہ چند جوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن اکٹھا کر کے لائیں ،پھر میں ان لوگوں کے پاس جائوں جو بلاعذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور جاکر ان کے گھروں کو جلادوں۔‘‘(مسلم، ابودائود، ترمذی، ابن ماجہ)

آپﷺ نے ارشاد فرمایا :’’جس گائوں یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہاں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے، اس لیے جماعت کو ضروری سمجھ، بھیڑیا اکیلی بکری کو کھا جاتاہے اور آدمیوں کا بھیڑیا شیطان ہے۔‘‘ (احمد، ابودائود، نسائی)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کسی نے پوچھاکہ ایک شخص دن بھر روزہ رکھتا ہے اور رات بھر نفلیں پڑھتا ہے مگر جمعہ اور جماعت میں شریک نہیں ہوتا (اس کے متعلق کیا حکم ہے) آپ نے فرمایا کہ یہ شخص جہنمی ہے۔‘‘(ترمذی)

دراصل باجماعت نماز جہاں واجب کے درجے اور انتہائی فضیلت کی حامل ہے، وہاں یہ شعائر اسلام میں سے اور اس سے اسلام کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ باجماعت نماز حقیقت میں دین کی ایک خاموش دعوت ہے جس کا اثر کفار پر اور بے نمازی مسلمانوں پر بھی پڑتا ہے اور عقب سے لوگ خصوصاً بچے اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور وہ بھی نہ صرف جماعت میں شامل ہوتے ہیں، بلکہ نماز کے عمل میں بھی شریک ہوجاتے ہیں۔باجماعت نمازاپنے اندر ایک بڑی کشش رکھتی ہے اور بڑی اعلیٰ و ارفع شان کا مظاہرہ ہوتا ہے جو اہل ایمان کو اپنی طرف کھینچتی ہے ،کتنے ہی لوگ بعض اماموں کا قرآن سننے کے لیے دور دراز کا سفر کرتے ہیں اور جہری نماز میں شریک ہوتے ہیں اس طرح عقب سے لوگوں نے باجماعت نماز کا عمل دکھلاکر اسلام قبول کیا۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جماعت ترک کرنا چھوڑ دو ،ورنہ اللہ تعالیٰ دلوں پر مہر لگا دے گا اور تم ان میں سے ہوجائو گے جن کو اللہ تعالیٰ نے غافل قراردیا ہے۔‘‘ (ابن ماجہ)

جب گھر کے بڑے جماعت کے لیے جاتے ہیں تو یہ گویا تمام گھر والوں کو نماز کی دعوت ہوتی ہے۔ آج ہم اپنے عمل سے یا تو دین کو پھیلانے والے ہیں یا مٹانے والے اگر ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم اور تعلیمات کے مطابق عمل کررہے ہیں تو دین کو پھیلانے والے ،ورنہ ہم دین کو مٹانے والوںمیں شمار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جماعت کے ساتھ مساجد میں پنج وقتہ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم خود بھی ذوق و شوق سے باجماعت نماز میں شریک ہوں ،کیوں کہ نماز ہی تمام اعمال کی اصل ہے، اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے۔ دین کی عمارت اور بنیادی ستون ہے،، مومن کی معراج ہے اور محبت الٰہی و رحمت خداوندی کا عظیم ترین سبب ہے۔

تازہ ترین