• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں عموماً معیار تعلیم کی بات کی جاتی ہے تو یہ مسئلہ ضرور دہرایا جاتا ہے کہ اِس وقت جو تعلیم دی جا رہی ہے، وہ عہدِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتی نظر نہیں آتی، چنانچہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی بیروزگاری کے گراف کو بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔ عام فہم لفظوں میں یہ کہ تعلیم نوجوان نسل کے لئے روزگار کے مواقع ترقی اور خوشحالی کے در وا نہیں کررہی اور یہی ہمارے تعلیمی نظام کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ملک بھر کی جامعات سے بی اے اور بی ایس سی ختم کر کے اُس کی جگہ 2سالہ ڈگری پروگرام ایسوسی ایٹ ڈگری اِن آرٹس اور سائنس شروع کرنے کی باقاعدہ گائیڈ لائن جاری کر کے اُس کا نوٹیفیکیشن جاری کرنا اِس حوالے سے خوش آئند ہو سکتا ہے کہ یہ پروگرام خاص طور پر عصرِ حاضر کے تقاضوں اور مارکیٹ کی ضرورت کے تحت بنائے جانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں یہ طریقہ اپنایا جاتا ہے کہ حکومت کو جس شعبے میں افرادی قوت کی احتیاج ہوتی ہے اُس سے متعلقہ ڈگری کے حصول کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی ہی نہیں کی جاتی، یونیورسٹیوں کو اُس فیکلٹی میں سیٹیں بڑھانے کے احکامات بھی جاری کئے جاتے ہیں، اُس کے برعکس صورتحال کا مقابلہ متبادل فیصلے کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی تعلیم یافتہ بیروزگاری کی دلدل میں نہیں دھنستا اور حکومت کو مطلوبہ تعلیم یافتہ ہنرمند بھی مل جاتے ہیں۔ وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن کا فیصلہ اگر اِس ماڈل کا عکس یا پر تو ہے تو لائق ستائش ہے، البتہ اُس کے نفاذ کے لوازمات کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے، خاص طور پر نوجوانوں کی تعداد، مارکیٹ کا حجم وضرورت اور صحیح معنوں میں وہ تعلیم جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے، نوجوانوں کی اُن کے مستقبل کے بارے میں رہنمائی بھی لازم ہے تاکہ وہ اِسی شعبے کا انتخاب کر سکیں جس میں وہ باصلاحیت ہوں، یہ نظام امید کے چراغ روشن کر کے بیروزگاری کی تاریکیاں کافور کر سکتا ہے۔ البتہ جو بی اے، بی ایس سی کررہے ہیں، اُن کے متعلق بھی فوری فیصلہ ناگزیر ہے تا کہ کسی کا حرج نہ ہو۔

تازہ ترین