• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان نہ صرف رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے بلکہ جغرافیائی طور پر یہاں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم بنا کر صوبے کے بنجر پڑے ہوئے وسیع رقبے کو سرسبز اور قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے۔ 15 برس قبل تعمیر کیا جانے والا میرانی ڈیم اس سلسلے کی کڑی ہے تاہم تین لاکھ دو ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلے اس ڈیم کے زمینوں سے محروم ہو جانے والے غریب متاثرین کو ابھی تک مکمل طور پر معاوضے کی ادائیگی نہ ہونا انتہائی تشویشناک امر ہے۔ بدھ کے روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل نے جس طرح صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے جلد از جلد مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے امید واثق ہے کہ متذکرہ معاوضوں کی ادائیگی میں اب مزید تاخیر نہ ہو گی ملک کے بالائی علاقوں میں ڈیم تعمیر کرنے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ان میں مٹی بھر جانے کا رسک نہ ہونے کے برابر ہے ۔میرانی ڈیم کی تعمیر بلوچستان کے ضلع کچھی میں جولائی 2006ء میں مکمل ہوئی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس منصوبے کی فیزیبلٹی رپورٹ 1956ء میں تیار ہوئی تھی، جس پر 45 برس بعد 2001ء میں کام شروع ہوا اور پانچ سال کے عرصے میں کام ختم ہو گیا۔ ڈیم سے دو نہریں نکال کر مجموعی طور پر 33 ہزار ایکڑ رقبہ سیراب کیا جا رہا ہے۔ 32 اضلاع پر مشتمل پاکستان کے کل رقبے کا 43.7 فیصد حصہ رکھنے والے صوبہ بلوچستان کی سرزمین بلند و بالا پہاڑوں، میدانی علاقوں اور صحرائوں پر مشتمل ہے لیکن اس کی آبادی ملک کی کل آبادی کا 20 واں حصہ بھی نہیں ہے جبکہ سیاحت اور قدرتی وسائل کے لحاظ سے یہ ملک کا امیر ترین صوبہ ہے۔ ان وسائل کو بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے یہاں کی آبادی بہت پسماندہ اور بے روزگاری عام ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قدرتی وسائل کی دولت کو بروئے کار لاتے ہوئے صوبے کو ہر لحاظ سے سرسبز و شاداب بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین