• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صبح بخیر…ڈاکٹر صفدر محمود


تاریخ کا مطالعہ دلچسپ بھی ہوتا ہے اور سبق آموز بھی، اگرچہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔

بیدار مغز قارئین بھی ایک نعمت ہوتے ہیں۔ وہ وقتاً فوقتاً غلطیوں کی نشاندہی کر کے لکھاری کو محتاط اور چوکنا رکھتے ہیں۔ رہی ہماری تقریباً ستر سالہ تاریخ تو وہ ماشاءاللہ ناول سے بھی زیادہ دلچسپ اور ’’طلسم ہوشربا‘‘ سے بھی زیادہ ہوش ربا ہے۔ کئی روز قبل ایک ایم فل(تاریخ) کی طالبہ کا فون آیا، تعارف کے بعد اُنہوں نے ایک سیدھا سادہ سوال داغ دیا۔ سوال یہ تھا کہ کیا جنرل ایوب خان محمد علی بوگرہ کی کابینہ میں وزیر دفاع بننے کے بعد مارشل لاء لگانے تک وزیرِ دفاع ہی رہے؟ میں نے فوراً جواب دیا کہ ہرگز نہیں۔ وہ محمد علی بوگرہ کی دوسری بار تشکیل کردہ کابینہ میں وزیرِ دفاع بنے اور کوئی آٹھ دس ماہ بعد محمد علی چوہدری وزیراعظم بنے تو جنرل ایوب خان سے وزارت واپس لے لی گئی اور وہ کمانڈر انچیف کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بحیثیت وزیرِ دفاع وہ کمانڈر انچیف بھی تھے اور حاضر سروس جرنیل بھی۔ یا ابوالعجب؟ یہ ہماری تاریخ کا حیرت کدہ ہے۔ طالبہ نے فوراً کہا کہ آپ کے ایک ساتھی اور عالم و فاضل بزرگ کالم نگار نے لکھا ہے کہ ایوب خان بوگرہ کی وزارت سے لے کر مارشل لاء لگنے اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے تک مسلسل وزیرِ دفاع رہے۔ میں نے عرض کیا کہ غلطیاں ہم سب سے ہوتی ہیں۔ میں نے وہ کالم نہیں پڑھا اگر ایسی بات لکھی گئی ہے تو وہ درست نہیں۔ میں نے اپنی تسلی کے لئے کابینہ ڈویژن حکومتِ پاکستان کا ریکارڈ چیک کیا۔ اُس کے مطابق ایوب خان محمد علی بوگرہ کی دوسری کابینہ میں 24اکتوبر 1954سے لے کر گیارہ اگست 1955تک وزیر دفاع رہے۔ اِس طرح شیر کے منہ کو خون لگ گیا اگرچہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل ایوب خان میں سیاسی جراثیم مدت سے پرورش پارہے تھے، جن کا انکشاف سردار عبدالرب نشتر نے اپنی سوانح حیات میں کیا ہے، جب کمانڈر انچیف کو محلاتی سازشوں، حکومتیں گرانے اور بنانے کا حصہ بنا لیا گیا تو پھر اِس خواہش کا پروان چڑھنا ایک قدرتی بات تھی کہ اگر حکومتیں ہمارے بل بوتے پر ہی تشکیل پاتی ہیں تو پھر میں بقلم خود ہی کیوں نہیں؟ مطلب پسِ پردہ رہ کر حکومتیں چلانے کی بجائے براہ راست کیوں نہ چلائی جائیں۔ محمد علی بوگرہ کی اِسی کابینہ میں اسکندر مرزا وزیرِ داخلہ کی حیثیت سے رونما ہوئے اور پھر محلاتی سازشوں کے زور پر ترقی پاکر گورنر جنرل بن گئے۔ ایک بیوروکریٹ غلام محمد کی جگہ دوسرا بیوروکریٹ اسکندر مرزا سربراہ مملکت بن گیا۔ 1956کا آئین بنا تو اسکندر مرزا گورنر جنرل کے بجائے صدرِ مملکت بن گئے۔ یہ سارے بیوروکریٹ مالی حوالے سے اتنے ایماندار تھے کہ عہدوں سے فارغ ہو کر تنگدستی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ مالی ایمانداری اپنی جگہ لیکن سیاسی حوالے سے ملک کا بیڑا غرق کر گئے اور پاکستان کو جمہوری راہ سے اتار کر مارشل لاء کے سپرد کر گئے۔ نہایت محنت سے بنایا گیا آئین بھی منسوخ ہوا اور پھر پے در پے فوجی حکمرانوں کی راہ ہموار ہو گئی۔ جمہوری آئین کی منسوخی اور فوجی حکومت کے قیام نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی خواہش کو ایک منظم تحریک بنادیا، جس نے 1971میں پاکستان کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔

آپ کو ایک ہوشربا واقعہ پھر کبھی سنائوں گا، اِس وقت یہ عرض کرتا ہوں کہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ بچہ سقہ کی مانند جنرل ایوب ایک دن کے لئے پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے۔ کابینہ کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے کچھ معزز حضرات سے ہمدردی کرنے کو جی چاہتا ہے جو محض چند دنوں کے لئے وزیر بنے اور پھر عمر بھر کے لئے سابق وزیر ہو کر رہ گئے۔ بیچارے سید علمدار حسین شاہ گیلانی، والد سابق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی نے ملک فیروز خان نون کی کابینہ(مرحوم کابینہ ثابت ہوئی) میں دو اکتوبر 1958کو حلف وفاداری اٹھایا۔ پانچ دنوں کے بعد سات اکتوبر 1958کو اُن کی وزارت کا آخری دن تھا۔ آٹھ اکتوبر 1958کو جمہوری بساط لپیٹ دی گئی اور مارشل لاء لگانے کے بعد کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے جبکہ اسکندر مرزا بدستور صدرِ مملکت رہے۔ صدرِ مملکت کی مشاورتی کونسل وفاقی سیکرٹریوں پر مشتمل تھی۔ گویا یہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا پہلا خالص تجربہ تھا کیونکہ گزشتہ تمام کابینائوں میں سیاستدان حاوی تھے۔ ٹیکنو کریٹس کی یہ حکومت 26اکتوبر تک قائم رہی۔ 27اکتوبر کو صرف ایک دن کے لئے ایوب خان کا وزیراعظم کی حیثیت سے نوٹیفکیشن جاری ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو سمیت کابینہ کا اعلان کیا گیا لیکن اسکندر مرزا کو دیس نکالا دینے کے بعد ایوب خان 28اکتوبر 1958کو صدرِ مملکت بن گئے۔ اُن کی کابینہ میں دو اہم جرنیلوں کے علاوہ نامور وکیل منظور قادر بحیثیت وزیرِ خارجہ اور نوجوان ذوالفقار علی بھٹو بطور وزیرِ کامرس شامل تھے:؎

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

بھلا میں نے یہ رام کہانی کیوں سنائی؟ اِس لئے کہ ہمارے ملک میں وقتاً فوقتاً ٹیکنو کریٹ حکومت کی افواہ جنم لیتی اور پھیلتی رہتی ہے۔ آج کل اسلام آباد کی افواہ ساز فیکٹریاں پھر افواہوں کی گرد اُڑا رہی ہیں، جب ایسی افواہوں کی وباء پھیلتی ہے تو کئی ٹیکنو کریٹس ادھار لے کر نئی شیروانیاں سلانے کے لئے درزیوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور وہ جن کا وزن نہیں بڑھا یعنی پیٹ نہیں نکلا وہ پرانی شیروانیوں کو الماریوں سے نکال کر ڈرائی کلین کروانا شروع کر دیتے ہیں، حتیٰ کہ افواہ دم توڑ جاتی ہے اور وہ اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر شیروانیوں کو پھر سے الماریوں میں لٹکا دیتے ہیں۔ کچھ حضرات تو خاموشی اور خوشی سے نہایت رازدارانہ انداز اپنا کر دوستوں سے یہ سرگوشی بھی کر لیتے ہیں کہ اُنہیں خفیہ کال آئی تھی۔ اُن کی موجودگی کی تصدیق کی گئی اور کہا گیا کہ ملک سے باہر نہ جائیں، عام طور پر یہ حضرات خاصے محتاط پائے جاتے ہیں لیکن کبھی کبھی بھول چوک بھی ہو جاتی ہے۔ ایک صاحب سے خوشی برداشت نہ ہو سکی، اُنہوں نے نہایت خاموشی سے یہ خبر اپنی بیگم کے کان میں ڈال دی اور سخت احتیاط کی ہدایت کی۔ آج کل اسلام آباد میں وہ بیگم صاحبہ دن رات لیڈیز ٹیلر شاپ کے چکر لگا رہی ہیں، نئے جوڑے سلوا رہی ہیں، جن میں سے ایک قیمتی جوڑا حلف وفاداری کی تقریب کے لئے مخصوص ہے۔ سچ پوچھیں تو مجھے اُن پر ترس آتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ مصرعہ بھی یاد آتا ہے: ؎

حسرت تو اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

تازہ ترین