• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں احمد رُشدی کی برسی تھی، بہت یاد آئے۔ ایک وہی نہیں بلکہ وہ دن بھی یاد آئے جب کراچی کے واحد فلم اسٹوڈیو، ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں ایک میلہ سا لگا رہتا تھا اور کس کمال کی فلمیں بن رہی تھیں کہ لاہور پیچھے رہا جا رہا تھا مگر وقت کا عجب معاملہ ہے۔ کچھ یوں آنکھیں پھیر لیتا ہے جیسے کبھی آیا ہی نہیں تھا۔ احمد رُشدی کا تعلق اُن باکمال اور بے مثال ہنر مندوں سے تھا جو حیدرآباد دکن سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ اُن میں سے کچھ حیدرآباد سندھ میں آباد ہوئے باقی نے کراچی کو آباد کیا اور آباد ہی نہیں کیا، ملک کے اِس گوشے کو کہ کراچی کہیں جسے اپنے کمالات سے وہ رونق بخشی کہ ویسے دن پھر کبھی نہیں آئے پلٹ کر۔ اِن احباب کو ڈرامہ، موسیقی اور براڈ کاسٹنگ جیسے شوبز کے سارے ہی ہنر خوب خوب آتے تھے۔ اُس وقت ٹیلی وژن تو تھا نہیں، اُن فنکاروں نے ریڈیو کا رخ کیا اور براڈ کاسٹنگ کی دنیا میں دھوم مچائی۔ اُس وقت ریڈیو پاکستان کو لا جواب آوازیں ملیں۔ اُنہی میں ایک آواز احمد رُشدی مرحوم کی تھی۔ جس پروگرام کے ذریعے وہ دنیا کی نگاہوں میں آئے، میرا خیال ہے بچوں کا پروگرام تھا۔ اُن دنوں ہم ایک گانا سنا کرتے تھے جو الف زبر آ، الف زیر اے، الف پیش او۔ بے زبر با، بے زیر بے، بے پیش بو سے شروع ہوتا تھا۔ کچھ عجب مضحکہ خیز سے بول تھے، غالباً دکن سے درآمد ہوا تھا۔ لیکن جس گانے نے احمد رُشدی کا مقدر جگایا وہ تھا: بندر روڈ سے کیماڑی، میری چلی ہے گھوڑا گاڑی، بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر۔ اِس گانے کو خوب شہرت حاصل ہوئی اور جب ویڈیو آگیا تو گانے میں تصویروں کی مدد سے اور رنگ بھر گئے۔ اُنہی دنوں کراچی میں فلم انڈسٹری نے زور پکڑا اور فلمی گانوں کی تخلیق کا سلسلہ چلا۔ ابھی موسیقاروں کی نگاہ مہدی حسن پر نہیں پڑی تھی۔ اُس وقت احمد رُشدی سے اُن کے مزاج سے ہٹ کر سنجیدہ گانے گوائے گئے۔ تب فلمی دنیا کو احساس ہوا کہ یہ گلوکار ہمہ جہت خوبیوں کا مالک ہے۔ اگرچہ اُنہی دنوں اُن کا گایا ہوا کو کو کورینا بہت مشہور ہوا لیکن اُسی زمانے میں ’اکیلے نہ جانا ‘ بھی مقبول ہوا۔ شہر میں مسرور انور کمال کے نغمے لکھ رہے تھے اور سہیل رعنا اور روبن گھوش اتنی ہی خوبیاں لئے طرزیں ڈھال رہے تھے۔ اِسی دوران وحید مراد اور زیبا کی جوڑی نے شہرت پائی، جس کے بعد زیبا کی جگہ شبنم نے لے لی اور یہ مقبول جوڑیاں ناظرین کو تفریح فراہم کرتی رہیں۔ اُس زمانے میں احمد رُشدی نے ’اُسے دیکھا، اُسے چاہا، اُسے بھول گئے‘ جیسا دلکش نغمہ گایا اور فلمی شاعری کے شعبے میں ایک اور گانا مقبول ہوا: ہاں اِسی موڑ پر، اِس جگہ بیٹھ کر، تم نے وعدہ کیا تھا، ساتھ دوگے، زندگی بھر، چھوڑ کر تم نہ جاؤ گے، ہاں اِسی موڑ پر۔ یہ مکمل بول میں نے اِس لئے لکھا کہ فلم کے نغموں کے بول توڑ توڑ کر لکھنا آسان کام نہیں اور عام شاعر اِس میدان میں ہانپ جاتے ہیں۔ یہ گُر مجھے قتیل شفائی مرحوم نے بتایا تھا جو سینکڑوں گیتوں کے خالق تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ فلمی نغمے کوئی کچھ بھی کہے گیت ہی ہوتے ہیں، اُن کی بناوٹ ہندی ہوتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ہم اُن میں غزل کی خوبیاں ڈال دیتے ہیں۔ احمد رُشدی نے اِن خوبیوں کو اچھی طرح نبھایا۔ آخر عمر میں مہدی حسن اور دوسرے گلوکار بھی میدان میں آگئے اور بڑا ستم یہ ہوا کہ وحید مراد چل بسے۔ پھر عجب بات یہ ہوئی کہ محمد علی جیسا فنکار سرگرم ہوا لیکن کراچی کی وہ رونق ماند پڑنے لگی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، احمد رُشدی نے کچھ نوجوانوں کو موسیقی کی تربیت بھی دی۔ میرے ہم جماعت شریف کمال عثمانی نے بچوں کے گیت لکھے تھے، جن پر اُنہیں کوئی ایوارڈ بھی ملا تھا۔ احمد رُشدی نے بچوں کے اُن گیتوں کا البم بنانے کا بیڑا اُٹھایا اور اپنے شاگردوں کو ساتھ ملا کر شریف کمال کے گیت مختلف آوازوں میں ریکارڈ کرائے۔ مگر دل کا عارضہ اُن کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا۔ وہ جب تک ممکن ہوا گاتے رہے لیکن بار بار کے ہارٹ اٹیک نے اُنہیں جیتا نہ چھوڑا۔ یہی اپریل کی گیارہ تاریخ تھی اور سنہ 1983تھا کہ اُنہوں نے دنیا کا ساتھ چھوڑا مگر وہ اپنی آواز کا ایک قیمتی خزانہ چھوڑ گئے۔

یہ سنہ چھپن ستاون کی بات ہے، جب مجھے کراچی کے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو جانے کا اتفاق ہوا۔ احمد بشیر سمندر پار سے فلم سازی کی تربیت لے کر آئے تھے اور اپنی ایک فلم کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ میں ملا تو دیکھا کہ وہ فلم کے منظر نامے کے تصویری خاکے بنا رہے تھے۔ اُن کی فلم میں ایک کالی بلّی کو علامت بنایا گیا تھا۔ اُن کے ساتھ مشہور اداکار آغا طالش بھی تھے مگر افسوس سے کہوں گا کہ پھر اُس فلم کا کیا بنا، میں نہ جان سکا۔ احمد بشیر فلم ساز کے علاوہ سرکردہ صحافی، مصنف اور صاحب طرز نثر نگار بھی تھے۔

وہیں میں نے اپنے دور کے سرکردہ میوزک ڈائریکٹر نثار بزمی کو دیکھا، وہ ناہید نیازی کی آواز میں نغمہ ریکارڈ کررہے تھے: میں ہوں پریم دیوانی باوریا، میرے من میں بسے ہیں سانوریا۔ پھر خدا جانے یہ نغمہ کہاں گم ہو گیا۔ فلم کی دنیا کا یہی چلن ہے۔ جسے چڑھائے گی، آسمانو ں تک لے جائے گی لیکن جسے گرائے گی، خاک میں ملا کر چھوڑے گی۔ سوچتا ہوں کہ مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ میرے گنج ہائے گراں مایہ تیرے ہاتھوں کہاں رُل گئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین