• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یونان کا لفظ میں نے پہلی بار میانوالی میں اپنے گھر کے قریب ایک گلی میں پڑھا تھا- وہاں ایک دروازے پر بورڈ لگا ہوا ہوتا تھا ’یونانی دواخانہ‘- وہ حکیم سکندر علی یونانی کا مطب تھا۔ تھوڑا بڑا ہوا تو پتہ چلا کہ یونان ایک ملک ہے جہاں کی ادویات، حکیم اور طریقہ علاج برصغیر میں بہت کامیاب ہے، اِس لئے لوگ دوائیوں اور دواخانوں کے نام کے ساتھ ’یونانی‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں- حکیم سکندر علی یونانی کے متعلق بھی محلے کے بڑے بوڑھوں کو یقین تھا کہ موصوف یونان سے پڑھ کے آئے ہیں، اِسی لئے اپنے نام کے ساتھ یونانی لگاتے ہیں۔ میں نے ایک دن اُن سے یونان کا جعرافیہ بھی پوچھا تھا۔ مجھے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے اُنہوں نے بڑی معصومیت سے کہا ’’میں اِس مضمون میں ہمیشہ فیل ہوتا رہا ہوں‘‘۔

ہمارے شہر کی سرکاری دیواروں پر بھی ایک اشتہار مجھے اب تک یاد ہے بہت موٹے حروف میں لکھا ہوتا تھا ’مرگی کا یونانی علاج‘۔ ’درد کا شافی یونانی علاج‘ جیسے اشتہار تو جگہ جگہ نظر آتے تھے، پھر اخباروں میں ایسے مطالبات بھی نظر آنا شروع ہو گئے۔ ’طبِ یونانی کے بجٹ میں فوراً اضافہ کیا جائے‘، حکومت نے بھی شاید لفظ یونان سے ڈر کر سرکاری اسپتالوں میں حکیموں کو ملازمتیں دینا شروع کردیں۔ حکومت پہ کیا موقوف، یونان کا تو نام آتے ہی بڑے بڑوں کا پتا پانی ہو جاتا ہے- کیوں نہ ہو بھئی، آخر اِس لفظ کے پیچھے سقراط، ارسطو، افلاطون وغیرہ چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں- سو ہم اور ہمارے آبا واجداد صدیوں سے یونان اور یونانیوں سے متاثر چلے آرہے ہیں-

سکندرِاعظم یونان سے نکلا تھا اور دنیا کو فتح کرتا ہوا جہلم کے کنارے جا پہنچا تو راجہ پورس نے اُس سے آخری جنگ کی- اگرچہ راجہ پورس جنگ ہار گیا مگر سکندرِاعظم بھی پھر کوئی اور جنگ نہ لڑ سکا۔اِس میں کوئی شک نہیں سکندر اعظم کے اُس حملے کے برِصغیر پر اثرات اب تک موجود ہیں- حکمائے طب کہتے ہیں تمام یونانی دوا سازی کے ادارے برصغیر میں سکندراعظم کے زمانے سے چلے آرہے ہیں- طبِ یونانی کے کچھ ماہرین اُس کے ساتھ آئے تھے اور واپس نہیں گئے، بے شک حکیم سکندر علی یونانی کے خدوخال بھی یونانیوں سے ملتے جلتے تھے۔ یونانی النسل حکیم پاکستان میں خاصے ہیں۔

میں جب ایتھنز کے لئے جہاز پر سوار ہوا تو خیال آیا کہ یہ جو مجھے تبخیر معدہ کا مرض لاحق ہے، اسکا علاج وہاں جاکر کسی اصلی یونانی حکیم سے کرائوں گا- پاکستان میں یونانی حکیم بھی بہت اچھے ہیں مگر اصلی تو اصلی ہی ہوتا ہےنا- اصلی پر یاد آیا کہ جرمنی سے ’’اعجاز پیارے‘‘ کو بھی آنا ہے، اُس کا ایتھنز میں کسی یونانی حکیم سے رابطہ ضرور ہوگا وہ اکثر وہاں جاتا رہتا ہے- مشہور ہے کہ ’’پیارے‘‘نے اپنے اعجازکا مظاہرہ کرتے ہوئے کئی لاعلاج مریضوں کا کامیاب علاج کرایا ہے- خیر مزاج تو اُس نے یورپ میں سینکڑوں لوگوں کے درست کئے ہیں- پھر خیال آیا کہ اگر ’’یورپ کےپیارے‘‘ کا کوئی جاننے والا نہ ہوا تو چوہدری اعظم کا تو کوئی نہ کوئی آشنا ضرور ہو گا، اُنہوں نے بھی تو فرانس آنا ہے- وہ پاکستان میں اربوں روپےکا تعمیراتی کام میں کررہے ہیں- اپنے سینٹریم کے لئے بھی کوئی یونانی حکیم اگر وہ اپنے ساتھ پاکستان لے جائیں تو سارا اسلام آباد وہیں ٹوٹ پڑے گا- طب یونانی کے احیاء کے لئے یہ ایک سنہر ی موقع ہے۔

ایتھنز میں مجھے اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل اور اُن کے حل کے موضوع پر لیکچر دینے کے لئے بلایا گیا- بے شک خرابیاں پیدا کرنے والے سے بہتر خرابیوں کا حل کون بتا سکتا ہے۔ میں اپنے انتخاب پر اہلِ یورپ کی نگاہِ گہر شناس کو داد دیتا ہوں۔ خیر تقریب شروع ہوئی تو ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کے خلاف تقریریں شروع ہو گئیں۔ میں پریشان ہو گیا کہ یہ مسئلہ تو میرا پیدا کردہ ہرگز نہیں، نہ ہی پی ٹی آئی کی حکومت کا اِس میں کوئی کردار ہے مگر اب اِس ناگہانی مصیبت کا کوئی حل تو نکالنا تھا۔ جیسے ہی میری باری آئی تو میں نے اِس مسئلے کو چھوڑ کر باقی تمام مسائل کے حل فرفر بتا دئیے۔ سننے والے عش عش کر اٹھے، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھئی تُو کون ہے اِن مسائل کو حل کرنے والا؟۔

ایتھنز میں بنیادی مسئلہ ڈیڈ باڈیز کا پاکستان پہنچانا تھا۔ یورپ کے غیر قانونی مہاجرین کا چونکہ پہلا پڑائو ایتھنز ہے اور جو سرفروشانِ یورپ راستے میں دم توڑ دیتے ہیں اُن کی میتیں واپس پاکستان بھیجنے کا معاملہ وہاں مقیم پچاس ہزار پاکستانیوں کی سانس میں پھانس بن کر اٹکا ہوا ہے۔ میں نے فوری حل نکال دیا کہ ایتھنز سے پی آئی اے کی پرواز شروع کی جائے کیونکہ پی آئی اے والے ڈیڈ باڈیز کا کرایہ نہیں لیتے بلکہ اگر جہاز میں کوئی موت ہو جائے تو اُسے بھی ٹکٹ واپس کر دیتے ہیں لیکن سفارت خانے کا مسئلہ سنگین تھا، نوجوان کا یہ الزام تھا کہ اُسے ایک آفیسر نے تھپڑ مارا ہے۔ میں اپنے میزبان شبیر داماہ، محمدخان، مدثر خادم اور چوہدری مہدی خان کے ساتھ سفارت خانے پہنچ گیا، میں ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں سفیر مجھ سے نہ پوچھ لے، تُو جو بڑا ’’اچھا شکر والا‘‘ بن کر آیا ہے تُو کون ہے، مگر قائم مقام نوجوان سفیر یارو عباس بڑا اچھا نوجوان تھا، اُس سے ملاقات ہوئی تو اُس نے بہت عزت دی، وہ بہت پُر جوش نظر آیا۔ اُس نے کہا کہ کوئی ایسا واقعہ ہوا ہی نہیں، کسی نے کسی کو تھپڑ مارا ہی نہیں، یہ اُس دن کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے پڑی ہے۔ بے شک فوٹیج میں تھپڑ مارنا تو کجا کسی نے کسی کو آنکھ بھی نہ ماری تھی۔ سچائی سامنے آنے پر میرے میزبانوں کو شرمندگی نہیں خوشی ہوئی، سب سچے پاکستانی ہیں اور نہیں چاہتے کوئی پاکستانی سفارت کار کسی مجبور پاکستانی کو تھپڑ مارے، پھر اصلی یونانی حکیم کی تلاش شروع کردی، یونان میں جہاں تک ممکن تھا وہاں تک ہارس بلکہ ہارس پاور گاڑیاں دوڑا دیں کسی حکیم کا کوئی سراغ نہ ملا۔ پتہ چلا کہ یونان میں حکیم نام کی کوئی شے موجود نہیں۔

تازہ ترین