• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

21اپریل کا اتوار، یومِ ایسٹر، سری لنکن مسیحیوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھا، جب یہ لوگ جناب مسیح علیہ السلام کے دوبارہ جی اُٹھنے کی خوشی یعنی اپنی عید کی مذہبی عبادات کے لئے گرجا گھروں میں منہمک تھے، عین اُس وقت خود کش حملہ آوروں نے اُنہیں خون میں نہلا دیا۔ اِس حملے میں اذیت ناک موت مرنے والوں کی تعداد 359تک پہنچ چکی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد پانچ سو سے بھی اوپر ہے۔ یقیناً یہ سانحہ سری لنکا کا نائن الیون ہے، جس سے پوری دنیا کی مہذب اقوام اور درد مند انسان دل گرفتہ ہیں۔ جس وقت یہ تفصیلات آرہی تھیں سب اپنے اپنے تخمینے پیش کر رہے تھے۔ ایسے بھی تھے جو انڈیا کی طرف کھرا تلاش کرنے میں کوشاں تھے، دور کی کوڑیاں لانے والے اِس کے ڈانڈے امریکہ سے ملانا چاہ رہے تھے۔ عین اُس وقت دوستوں سے عرض کی کہ اگر آپ لوگ مائنڈ نہ کریں تو ناچیز کو یہ ساری کارستانی ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی دکھائی دیتی ہے، آواز آئی کہ آپ کو تو ہر وقت اپنے آپ سے ہی شکایت رہتی ہے۔

اِن خوفناک خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے بعد معروف جہادی تنظیم داعش یعنی ISISنے اپنی آن لائن نیوز ایجنسی اعماق کے ذریعے اِن کی ذمہ داری قبول کی اور اِس کی تفصیلات بھی جاری کیں۔ برطانوی اخبار گارڈین نے اِن خود کش حملہ آوروں کی شناخت اور دیگر تفصیلات شائع کی ہیں۔ یہ راسخ العقیدہ نوجوان ناخواندہ تھے اور نہ ہی غربت کے ہاتھوں مجبور و بے بس، کمی تھی تو صرف اندھی جنونیت کی جگہ شعوری آگہی کی۔ داعش کو مقامی سطح پر سری لنکا کی ایک غیر معروف شدت پسند جہادی تنظیم قومی توحید جماعت کا تعاون بھی حاصل تھا، جو ماقبل بدھا کے مجسمے توڑنے کی پہچان رکھتی ہے۔ سری لنکن وزیرِ دفاع وجے وردن نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی تحقیقات میں جو چیز سامنے آئی، اُس کے مطابق یہ سب کرائسٹ چرچ کی مساجد میں مسلمانوں پر ہونے والے حملے کا ردِ عمل ہے، جس میں توحید جماعت ملوث ہے اور اسے دیگر بیرونی شدت پسند عناصر کا اشیر باد یا تعاون بھی حاصل تھا۔

سری لنکن وزیرِ داخلہ نے اپنی ’سیکورٹی ناکامی‘ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ سری لنکن حکومت نے دیگر کئی عہدوں پر فائز ذمہ داران کو بھی سیکورٹی لیپ کی وجہ سے اُن کی ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا ہے۔ تانبا فیکٹری کے مالک انشاف احمد ابراہیم اور اس کے بھائی الہام احمد ابراہیم کو اِن تباہ کن حملوں کا ماسٹر مائنڈ بیان کیا جا رہا ہے۔ ایک خاتون حملہ آور فاطمہ ابراہیم کا نام بھی سامنے آیا ہے جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ دو دہشت گرد بھائیوں میں سے ایک کی حاملہ بیوی تھی۔ پولیس کارروائی کے دوران اُس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا ہے۔

درویش یہاں اپنے لوگوں کے سامنے ایک سوال رکھنا چاہتا ہے کہ نیوزی لینڈ میں جو پچاس ہلاکتیں ہوئیں، اُن کے خلاف مسلمانوں میں بجا طور پر شدید غم و غصہ تھا، جس کا اظہار نہ صر ف عوامی سطح پر بلکہ میڈیا میں بھی بڑی شدومد کے ساتھ ہوا اور ہونا بھی چاہئے تھا مگر سری لنکا میں جو اِتنے زیادہ بے گناہ انسان مار ے گئے، اُن ہلاکتوں کے خلاف اُس نوع کا غم وغصہ عوامی سطح پر چھوڑ ہمارے میڈیا میں بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ نہایت عاجزی کے ساتھ کیا اِس کی وجہ معلوم کی جا سکتی ہے؟ اگر وہ پچاس عبادت کے لئے جمع تھے تو اِن کی بڑی تعداد بھی اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کے لئے جمع تھی اور جو دیگر بے گناہ لوگ ہوٹلوںمیں بے دردی سے قتل کئے گئے، کیا اُن سب کا دکھ انسانی دکھ نہیں ہے؟

بظاہر انسانیت کی باتیں کرتے ہمارے گلے خشک نہیں ہوتے، ایک بے گناہ انسان کی موت پوری انسانیت کی موت کے برابر قرار دیتے ہوئے بھی ہم لوگ نہیں تھکتے لیکن یہ ایک باریک نکتہ ہے کہ جو مظلوم ہمارے ہم مذہب نہ ہوں یا جن کے قاتل ہمارے مذہب کے نام لیوا ہوں کیا ہمارا فرض نہیں بنتا ہے کہ کیوی وزیراعظم کی طرح اُن قاتلوں کی مذمت کے ساتھ مقتولین کے حق میں زیادہ زور شور سے آواز اٹھائیں اور پوری دنیا کو یہ پیغام پہنچائیں کہ ہم امن وسلامتی اور انسانیت کے علمبردار ہیں۔ متشدد جہادی گروہ ہمارے مذہب کے روشن چہرے پر دہشت گردی کے جو سیاہ داغ دھبے لگاتے ہیں، ہم آگے بڑھتے ہوئے انسانیت کی آواز بلند کر کے اپنے طرزِ عمل سے خود اُن دھبوں کو دھوئیں گے۔

درویش اپنی قوم کے فہمیدہ طبقات کے سامنے دست بستہ یہ گزارش کرنا چاہتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور دیگر اقوام کے درمیان بڑھتے ہوئے تہذیبی یا عقیدہ کی خلیج کو پاٹنے کے لئے جاندار کردار ادا کریں۔ انتہا پسند طبقات اپنے تشخص کو نمایاں تر کرنے کے لئے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اِس خلیج کو وسیع تر کر رہے ہیں، ہمارے سنجیدہ باشعور اور انسان نواز دانشور انسانیت کی ابدی مشترکہ اقدار کو اجاگر کرتے ہوئے اِن فاصلوں کو سمیٹنے کے لئے جدوجہد کریں۔ ایک طرف ہمارا دعویٰ ہے کہ تمام انسان خواہ وہ کسی مذہب، نسل یا جنس سے تعلق رکھتے ہوں، خدا کا کنبہ ہیں اور خدا کو سب سے محبوب وہ انسان ہے جو اِس کے کنبے سے محبت رکھتا ہے۔ کیا ہمارا موجودہ طرزِ عمل، ہمارے اِس پیغام سے مماثلت رکھتا ہے کہ ہم دنیا میں عظمتِ انسانی کے علمبردار اور امن و سلامتی کے سچے داعی ہیں؟

تازہ ترین