• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد دنیا کے خوبصورت اور بظاہر ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی تاریخی حیثیت چند دہائیوں پر مشتمل ہے اس لئے اس کے ارتقاء، سماجی، ثقافتی و سیاسی پس منظر کے خانوں میں گھنے جنگلوں کے سائے کے سوا کچھ اور نہیں۔ بہرحال اسے جب پاکستان کے دارالحکومت کے طور پر باقاعدہ آباد کیا گیا تو اس کی آباد کاری دراصل پاکستان کی خوشحالی سے مشروط ہو گئی کیوں کہ ملک و قوم کی قسمت کے تمام فیصلے یہیں رقم ہونے تھے۔ عظیم الشان عمارتوں اور اعلیٰ گریڈوں کی قوت کے نشے میں سرشار یہاں کی افسرانہ مزاج فضائیں جمہور سے کوئی خاص اُنسیت نہیں رکھتیں کیوں کہ ابھی تک یہ شہر عام آدمی کی رسائی سے کوسوں دور ہے اور خاص ہونے کے باوجود بھی یہ دنیا کے خوش قسمت، خوش نام اور اچھی شہرت والے شہروں میں اپنا نام لکھوانے سے قاصر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر ایک بڑی وجہ اس پر ہونے والی وہ یلغار ہے جس کی منصوبہ بندی کا اسکرپٹ تو کہیں اور تحریر ہوتا ہے مگر قافلے کے تمام شرکاء اور سربراہ اسی ملک سے تعلق رکھتے ہیں۔ قیام اسلام آباد کے بعد اس پر کئی سنگین حملے کئے جا چکے ہیں جن کے نتیجے میں ملک و قوم کو نہ صرف رسوائی اور بحرانی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا بلکہ یہ تاریک سائے عجیب سے خوف اور بے چارگی کی سیاہی میں ڈھل کر اس شہر کے شاہی قلم میں یوں سرائیت کر گئے کہ یہ خوشحالی اور ترقی کے کسی منصوبے پر دستخط کرتے ہوئے بھی ہچکچاتا ہے۔ اپنی ہی زمین پر تعمیر کئے جانے والے ڈیموں اور بندرگاہوں سے مستفید ہونے سے بھی محروم ہے کیوں کہ ہر چھوٹا بڑا عمل اسے اندرونی حملے سے خوفزدہ کر کے بے دست و پا کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمجھوتوں کی بندشوں میں جکڑے ہونے اور نادیدہ قوتوں کے خوف کے باعث یہ آج ملکی اور بین الاقوامی حوالے سے آزادانہ فیصلے کرنے کی حالت میں نہیں بلکہ بار بار کی یلغار نے اس بظاہر شاہانہ اطوار کے حامل شہر کا مزاج ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ملکی ترقی اور آئین کی بالا دستی کے ساتھ ساتھ اب اس شہر کی فکری آزادی کے لئے بھی کوشش کرنا ہو گی کیوں کہ جب تک اسلام آباد غیر جمہوری قوتوں کے شکنجے سے آزاد نہیں ہو گا ہر نظام کا نتیجہ ناکامی کے سوا کچھ اور نہیں ہو گا۔
اسلام آباد کی آزادی کے لئے میڈیا پوری طاقت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے صحافی لوگوں میں شعور اور آگہی اجاگر کر کے انہیں ظاہری اور پوشیدہ طاقتوں کی کارفرمائی سے آگاہ کر کے قومی فرض ادا کرنے میں آگے آگے ہیں۔
میرا خیال ہے اس وقت میڈیا بہت پاپولر ہے اور لوگ ان کی بات کا یقین بھی کرتے ہیں اس لئے موجودہ صورتحال میں صاف نظر آتا ہے کہ وہ جمہوری روایات کی پاسداری کو اپنے مقاصد میں شامل کر کے غیر جمہوری قوتوں کو راستہ دینے کے حق میں نہیں۔ میڈیا کو اس سے تھوڑا اور آگے چلنا ہو گا اور اینکرز خواتین و حضرات کو اپنے پروگراموں میں سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور جمہوری نظام کے حامل لوگوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی پالیسی کو ترک کرنے پر آمادہ کرنا ہو گا کیوں کہ ان کی لڑائی سے عوام پر برا اثر پڑتا ہے اور غیر جمہوری قوتوں کو انہیں یرغمال بنانے کا موقع ملتا ہے۔ ضروری ہے کہ ایشوز اور پالیسیوں پر تنقید کی جائے اور فرد کی حیثیت سے لوگوں کا محاسبہ کیا جائے۔ سیاست دانوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ کبھی کسی آمر نے بھی اپنے سے پہلے آمر کی ذات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے؟ جب یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ تمام سیاست دان، وزراء اور ممبران چور ہیں تو اس کا سہارا لے کر آمرانہ ذہنیت کے حامل گروہ اور علاقائی تنظیمیں متحرک ہو جاتی ہیں اور عوام کو جمہوری قدروں سے متنفر کر کے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ ارسطو نے قبل مسیح کہا تھا کہ دنیا کے تمام انسان برابر نہیں۔ اس پر بڑی بحثیں ہو چکی ہیں لیکن سچی بات ہے کہ بحیثیت انسان سب سے یکساں رویہ رکھا جا سکتا ہے مگر صلاحیتوں کے حوالے سے دنیا کے انسان ایک جیسے ہر گز نہیں کیوں کہ انہیں مختلف شعبوں میں اپنے فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ اس لئے فطرت نے ان میں صلاحیتوں کے حوالے سے مختلف ہنر رکھے ہوتے ہیں لیکن یہاں ہر کوئی ایک جیسی زندگی کا خواہشمند ہے جس کی آمدنی 20 ہزار ہے وہ 20 لاکھ کمانے والے بزنس مین جیسی سہولتیں نہ ملنے پر حکومت سے شکوہ کناں ہے۔ میڈیا نے اس ملک کی ترقی اور عوام کی شعوری بیداری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج پھر میڈیا پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو جمہوریت مزاج بنائے کیوں کہ بقاء اسی میں ہے اور یہی بہترین محاسبہ بھی ہے۔ ورنہ ہر پریشر گروپ اسلام آباد میں ہزاروں لوگوں کا مجمع لگا کر 18 کروڑ عوام کی دہائی دے کر اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرانے کی کوشش کرے گا۔ اس روش کو روکنا بہت ضروری ہے۔ دکھ ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری جیسی صاحب علم و دانش ہستی یکایک اصلاحات کے نعرے سے متنازع ہو گئی، ان کی باتیں بھلے درست ہوں مگر طریقہ کار غلط ہے۔ خدا کرے آنے والے دنوں میں کوئی بشارت ڈاکٹر طاہر القادری کے وجدان پر اترے جو انہیں ان کے اصل فرائض منصبی کی طرف گامزن ہونے کی ترغیب دے اور ان تمام نقصانات سے بھی آگاہ کرے جو انتخابات کو ملتوی کرنے سے ممکن ہو سکتے ہیں اور الطاف بھائی بھی ڈرون کے بجائے کوئی پھولوں جیسی بات کریں۔ احتجاج، لانگ مارچ اور مظاہرے جمہوریت کا حسن ہیں مگر قانون کو ہاتھ میں لینا اور طاقت سے نظام میں تبدیلی کی خواہش آمرانہ سوچ کی غماز ہے۔ معروف استاد شاعر شفیق سلیمی نے کیا خوب کہا ہے
عدو کے وار پر پہرہ نہیں ہے
کسی تلوار پر پہرہ نہیں ہے
کہیں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے محتاط
کہ پہرے دار پر پہرہ نہیں ہے
کہانی کار تھک کر سو گیا ہے
کسی کردار پر پہرہ نہیں ہے
تازہ ترین