• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انصاف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ہوتا ہوا دکھائی دے اور فوری ہو کیونکہ تاخیر سے ملنے والا انصاف ناانصافی کی ہی ایک شکل ہے۔ عہد غلامی یعنی راج برطانیہ کا انصاف آج بھی ضرب المثل ہے کیونکہ درج بالا دونوں خصوصیات کا حامل ہوتا تھا یعنی فوری ہوتا تھا اور ہوتا ہوا دکھائی بھی دیتا تھا۔ مظلوم کی داد رسی ہوتی اور ظالم کو نشان عبرت بنا دیا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد ہم اس روایت کو آگے لے کر نہیں چل پائے اور آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں تیس لاکھ مقدمات زیرالتوا ہیں، جن میں ایک لاکھ 68ہزار وطن عزیز کی اعلیٰ عدالتوں میں اور باقی زیریں عدالتوں میں ہیں۔ سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کی تعداد 17895 ہے۔ گویا سترہ رکنی عدالت عظمیٰ کے ہر جج کے حصے میں 1053 کیسز آتے ہیں۔ صوبائی ہائیکورٹس کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں۔ لاہور ہائیکورٹ میں 60759، سندھ ہائیکورٹ میں 82560، بلوچستان ہائیکورٹ میں 4643 اور پشاور ہائیکورٹ میں 2643 مقدمات فیصلہ طلب ہیں۔
کوئی زمانہ تھا لوگ عدالت کے نام سے کانپتے تھے معمولی ٹریفک مجسٹریٹ سڑک پر نکلتا تو گاڑیوں والے محتاط ہو جاتے، نامکمل کاغذات والی اور ان فٹ قسم کی گاڑیاں تو بالکل ہی غائب ہو جاتی تھیں۔ بتدریج در آنے والے انحطاط نے جہاں دیگر قومی اداروں کو متاثر کیا ہے وہاں ہماری عدلیہ بھی اس کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہ سکی۔ باہمی ادب آداب، رکھ کھاؤ اور عزت و احترام کچھ اس طور غائب ہوا ہے کہ ہر کوئی دوسرے کی پگڑی پر ہاتھ ڈالنے لگا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ تو کسی نہ کسی طور عزت بچائے ہوئے ہے مگر نچلی سطح پر ججوں کی اتھارٹی خوفناک حد تک متاثر ہوئی ہے۔ جہاں جوتے چلتے ہیں، گالم گلوچ ہوتی ہے، دھینگا مستی اور ہڑتالیں عام ہیں اور تبادلوں کیلئے ناجائز دباؤ معمول کی بات ہے۔ بنچ اور بار کے مابین تعاون اور یکجہتی ماضی کا قصہ بنتا جا رہا ہے۔ جب عدالتیں اس قدر بے بس اور بے وقعت ہو جائیں تو کہاں کے فیصلے اور کہاں کا انصاف!! پریذائیڈنگ افسر محض عزت بچانے اور وقت گزارنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ فیصلہ طلب فائلوں کے ڈھیر چھتوں کو چھونے لگتے ہیں۔ ایسے میں اگر تین ملین سے ذرا کم کیسز ماتحت عدالتوں میں زیرالتوا ہیں تو کوئی اچنبے کی بات نہیں۔
مقدمات کا طویل التوا فریقین کو کس اذیت سے دوچار کرتا ہے؟ اس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیا آپ کے علم میں ہے کہ ہماری کناروں تک ابلتی جیلوں کے دو تہائی باسی وہ بدقسمت ہیں جن کے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیرسماعت ہیں اور جنہیں عرف عام میں انڈر ٹرائیل قیدی کہا جاتا ہے۔ جن میں اکثریت ان لاوارث بے گناہوں کی ہوتی ہے جنہیں پولیس محض خانہ پری کیلئے دھر لیتی ہے اور وہ عدالتوں سے باعزت بری بھی ہوجاتے ہیں۔ جیل میں مہینوں بلکہ برسوں چکّی پیسنے والوں کی باعزت بریت بھی کسی مذاق سے کم نہیں۔ سلاخوں کے پیچھے بتائے سالوں اور مہینوں کا حساب انہیں کون دے گا؟ مقدمات کے طویل التوا سے عوام میں فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے، عدالتی نظام پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے، اضطراری کیفیت میں قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور مزید جرائم کر بیٹھتے ہیں۔ مثالیں تو بے شمار ہیں صرف ایک کی روداد سن لیجئے ”مسئلہ کچھ زیادہ گمبھیر نہیں تھا دو چچازاد بھائیوں میں زمین کے ایک ٹکڑے پر جھگڑا ہوگیا اور معاملہ عدالت میں چلا گیا خون گرم تھا اور ہر کوئی حق چھیننے کے درپے تھا۔ سو ابتدائی چند برسوں میں اصل مدعی سمیت 13قتل ہوگئے۔ یوں ایک دیوانی کے بطن سے درجنوں فوجداری مقدمات بھی نکل آئے۔ اس انہونی کو 26برس بیت گئے۔ بگاڑ اپنی انتہا کو پہنچ گیا، فریقین عبرت کا نشان بن گئے اور جب کچھ نہ بن پایا تو ایک شام مل بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ ایک دوسرے کے سب قتل معاف اور سب مقدمے واپس۔ نیز یہ کہ متنازع رقبہ قبرستان کو دے دیا جائے کیونکہ مُردوں کے دفن کیلئے جگہ کم پڑ گئی تھی۔انصاف کے عمل کو تیز تر بنانے کیلئے بحث ہمیشہ سے جاری ہے بہت کچھ کہا جاتا ہے مگر عملاً کیا کچھ بھی نہیں جاتا کیونکہ اسٹیٹس کو کا غلام ہونے کے ناتے عمل کے معاملے میں ہم بے حد ماٹھے واقع ہوئے ہیں۔ اسی سبب انصاف میں تاخیر کے معاملے میں بھی ہم ابھی تک کچھ نہیں کر پائے اور محض ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔اول یہ کہ ہر سطح پر ججوں کی تعداد میں معتدبہ اضافہ کیا جائے، جسے دو گنا کرنے پر بھی چند ارب روپے سے زیادہ خرچہ نہیں آئے گا۔ جو اللوں تللوں پر اٹھنے والے بے پناہ اخراجات کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ دوم یہ کہ ججوں کی تعداد میں مستقل اضافہ ناگوار گزرے تو معقول تعداد میں ریٹائرڈ ججوں کی عارضی بھرتی کر کے بیک لاگ سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے مگر مسئلے کا موثر اور پائیدار حل یہ ہے کہ مقدمہ بازی کی حوصلہ شکنی کیلئے میکانزم تشکیل دیا جائے۔ ہم جذباتی قوم ہیں معمولی معمولی باتوں پر مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ تھانہ کچہری کے نظام کی ابتری اور سفاکی سے واقف ہونے کے باوجود مقدمہ بازی میں کود پڑتے ہیں اور پھر پچھتاتے ہیں۔ اس کمزور لمحے فریقین کو کونسلنگ اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے بھلے وقتوں میں یہ رہنمائی گلی، محلے اور گاؤں کی سطح پر مل جاتی تھی بزرگ اور سیانے فریقین کو سمجھا بجھا کر مقدمہ بازی کی دلدل سے بچا لیتے تھے۔
بدقسمتی سے وہ بزرگ اور سیانے نہیں رہے اور اگر ہیں بھی تو ان کی سننے کا رواج ختم ہو گیا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اس انمول ادارے کو پھر سے بحال کیا جائے اور وہ یوں کہ ہر تھانے میں ایک پڑھے لکھے، تربیت یافتہ اور معاملہ فہم قسم کے شخص کا تقرر ہو، جو آنے والے کو صلح صفائی کی طرف لے جائے اور انہیں بتائے کہ مل بیٹھ کر معاملہ نمٹانے میں ہی ان کی بھلائی ہے۔ تھانہ کچہری کے چکر میں پڑ گئے تو نسلیں برباد ہو جائیں گی۔ تجربہ شاہد ہے کہ ثالثی کے اس عمل کو فریقین کیلئے قابل قبول بنانا زیادہ مشکل نہیں ہوتا کیونکہ یہ وہ واحد نظام ہے جس میں کسی کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی جس میں فیصلہ باہر سے نہیں آتا بلکہ فریقین باہم مشاورت سے خود کسی فیصلے پر پہنچتے ہیں۔ جس میں کسی کی جیت ہوتی ہے اور نہ کسی کی ہار ۔
تازہ ترین