• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ تنگ تو نہیں آگئے۔ یہ سن سن کر کہ آج اتوار ہے۔ اپنوں سے ملنے۔ دل کی باتیں کرنے کا دن۔ اگر ایسا ہے تو بتادیں۔ ہم اتوار کو کچھ اور گفتگو کرلیا کریں گے۔ پورا ہفتہ آپ مصروف رہتے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اور ایسی ریاست میں جہاں 72سال میں ہم کوئی سسٹم نہیں بناسکے ہیں۔ اس ماحول میں زندہ رہنا بھی ایک چیلنج ہے۔ کہاں بزنس کرنا یا ملازمت۔ چاہے چھوٹی ہو یا بڑی۔ قدم قدم مافیا۔ دبائو۔ اس لیے میں اس نکتے پر زور دیتا ہوں کہ اتوار کو اپنے بچوں۔ اہل خانہ سے ملنے کے لیے وقف کردیں۔ آپ میں سے ہر ایک ہی اپنے اپنے دائرے میں گھومتے انہی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ ایک روز ایسا رکھیں کہ کشاکش زمانہ سے آزاد ہوکر اپنی دنیا میں کھوجائیں۔ ہم اور آپ تو اپنی عمر کا بڑا حصّہ طوفانوں سے مقابلہ کرتے گزار چکے۔ اب بچوں کو سرد و گرم سے پنجہ آزما ہونے کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس کے لیے اتوار کو غنیمت شُمار کریں۔ بچوں میں ان کے ذہنی رجحانات کا جائزہ لیں۔ ان سے سوالات کریں۔ تاکہ معلوم ہو اسکول میں ان کے ذہن پر کیسے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ کتابوں میں لکھا ان کو کس طرف لے جارہا ہے۔ ان کے اساتذہ یا ٹیچرزکیا پڑھاتے ہیں۔ کیا پوچھتے ہیں۔ کتابوں اور اساتذہ سے ہٹ کر اب سوشل میڈیا بھی بچوں کی ذہنی ساخت پر اثر انداز ہورہا ہے۔ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ فیس بک، واٹس ایپ پر کیسی عبارتوں اور تصویروں میںدلچسپی لے رہے ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر وہ کیا دیکھتے ہیں۔ اس سے ان کے دماغ میں کیا کیا خیالات جگہ بناتے ہیں۔ آپ کے بعد انہوں نے ہی اپنے خاندان کو سنبھالنا ہے۔ اس شہر کو ملک کو چلانا ہے۔ آپ کی جو تمنّائیں پوری نہ ہوسکیں مرادیں بر نہیں آئیں۔ وہ ان کو منتقل کریں۔ اپنے خواب انہیں ورثے میں دیں۔ آج صبح سویرے ہی مجھے ایک ایسے ادارے میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں نیکیاں ہی نیکیاں کمائی جارہی ہیں۔ خصوصی بچے بچیوں کو یہاں صرف تعلیم نہیں۔مختلف ہُنر بھی سکھائے جارہے ہیں۔ بہت آرام دہ، روح پرور ماحول۔ قدم قدم ہمت بڑھانے کا اہتمام۔ سب سے اچھی بات یہ لگی کہ جب ایک خاص بچہ اس جہانِ ہُنر میں داخل ہونے آتا ہے تو پہلے کچھ روز ماہرین اس کے ذہنی رجحانات جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلّمہ نفسیاتی، علمی اور طبی اصولوں کی روشنی میں۔ عالمی طور پر آزمودہ قواعد کے تحت کہ یہ خصوصی انسان۔انتظامی امور کی طرف مائل ہے یا اسمیں فنون لطیفہ سے لگائو ہے۔ مصوّری کی لگن ہے۔ ڈیزائنر کی رغبت ہے۔ اور یہ رجحانات کس سطح کے ہیں۔ اس تربیت گاہ کے لیے کسی وقت تفصیل سے بات ہوگی۔ ابھی تو میں اس سحر میں کھویا ہوا ہوں کہ ان خصوصی بچوں بچیوں کا یہاں کے اساتذہ ان کے ماں باپ سے زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ زیادہ محبت کرتے ہیں۔ شہر کے کچھ درد مند۔ صنعت کار مخیر حضرات اپنے عطیات سے اس ادارے کا معیار بلندکررہے ہیں۔ یہاں بڑی شخصیتوں کے بچے بھی ہیں۔ عام لوگوں کے بھی۔پہلے تو وہ ان کے ذہنی میلان تلاش کرتے ہیں پھر انہیں پوری توجہ محنت اور محبت سے اس شعبے میں مہارت سکھاتے ہیں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ان پاکستانیوں کو کتنی تسکین اور طمانیت نصیب ہوتی ہوگی۔ جب یہاں آنے والا بچہ۔ جو ہاتھ میں قلم بھی ٹھیک سے نہیں تھام سکتا ہوگا۔ وہ کسی ادارے میں بڑی انتظامی مسند سنبھال کر وہاں بہترین کارکن کا اعزاز حاصل کرتا ہے۔ میں Karachi Vocational Training Centre for the Intellectually Challenged میں ہوں۔ ذہانت تو سب کی اس وقت چیلنج ہورہی ہے۔ سب سے زیادہ حکمرانوں کی۔ بعض لوگ ایسے بچوں کو ذہنی معذور کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان سے زیادہ ذہنی معذور ہیں۔ ان میں تو سیکھنے کی تڑپ ہے۔ جس کام پر لگ جائیں پورے تن من سے جت جاتے ہیں۔ کشیدہ کاری ہو۔ بلاک پرنٹنگ۔ ڈیزائننگ۔ لکڑی تراشنے کے مراحل ہوں۔ اِدھر اُدھر توجہ نہیں بٹتی۔ ہم جو اپنے آپ کو نارمل کہتے ہیں۔ کبھی پوری توجہ اپنے کام پر مرکوز نہیں کرتے۔ ضرورت تو ہمیں ہے کہ کوئی ایسا سسٹم آئے یا ایسے ماہرین۔ جو ہماری قیادت کے دعویداروں کی تربیت کریں۔ انہیں معیشت سکھائیں۔ زراعت میں نئے تجربات کی آگاہی دیں۔ کتنے عظیم ملک کو افراتفری میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہر روز قبائلی جنگ کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میڈیا بھی یہ خانہ جنگی براہِ راست دکھاتا ہے۔ یہ جن کو زعم ہے کہ ان کے پیروکار کروڑوں میں ہیں۔ کیسی کیسی حرکتیں کرتے ہیں کیسی زبان استعمال کرتے ہیں۔ آج کل یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ 8مہینے سے بر سراقتدار پارٹی ناکام ہوچکی ہے۔ اسے چلے جانا چاہئے۔ ایک صحافی کی حیثیت سے ہم سالہا سال سے یہ سنتے آرہے ہیں۔ ایک حلقہ حاکم وقت کو ملک کی آخری امید قرار دیتا آرہا ہے۔ دوسرا حلقہ اصرار کرتا ہے کہ یہ حکمراں اور ملک ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ عمران خان والے کل یہ تاثر دیتے تھے کہ میاں نواز شریف چلے جائیں تو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ نواز شریف والے کہتے تھے مشرف چلا جائے سب درست ہوجائے گا۔ اب یہ کہا جارہا ہے۔ اسد عمر نہیں استعفیٰ تو عمران خان کو دینا چاہئے۔ ایسے تبصرے کرتے وقت سب بھول جاتے ہیں کہ جس ملک پر مصیبت ٹوٹ رہی ہے جس کی معیشت ابترہے۔ وہ ملک ہم سب کا ہے۔ اس قبائلی جنگ میں ملک کمزور ہورہا ہے۔ معیشت اچانک چند ماہ میں تنزل کا شکار نہیں ہوتی ہے۔ یہ مختلف حکومتوں کی پالیسیوں سے مسلسل دبائو میں ہے۔ لوٹ مار کل بھی جاری تھی۔ آج بھی جاری ہے۔ معیشت کو ماہرین درست کرسکتے ہیں۔ یہ جذبات کا نہیںاعدادوشمار اور حقائق کا معاملہ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی کے پاس اقتصادی ماہر نہیں ہیں۔ بیرون ملک سے منگوانا پڑتے ہیں۔ یا عالمی بینک سے۔ پی پی پی کا یہی حال تھا۔ اب پی ٹی آئی بھی اس چیلنج سے دوچار ہے۔ن لیگ نے تو اپنے سمدھی پر انحصار کرلیا تھا۔ ماہر وہ بھی نہیں تھے۔ عمران خان نے ایک کمیٹی بنائی تھی۔ خبر نہیں وہ اس اقتصادی صورتِ حال پر کیا کہتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بحث کیوں نہیں ہوتی کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہئے یا نہیں۔ معیشت کی ابتری کے اسباب کیا ہیں۔ برآمدات کم ہوتی جارہی ہیں۔ ضرورت کی اکثر اشیا دوسرے ملکوں سے درآمد ہوتی ہیں۔ڈالر میں ادائیگی ہوتی ہے۔ ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے۔ اس لیے مہنگائی تو لازمی ہے۔ کیا ہم اس سنگینی کا احساس کرتے ہوئے بدیشی مال کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں۔اپنی مصنوعات استعمال کریں۔ اپنے کارخانے چلیں۔ ڈالر زیادہ خرچ نہ کرنے پڑیں۔ جب تک ہم غیر ملکی اشیا کے صارف بنے رہیں گے۔ مہنگائی بڑھتی رہے گی۔ اگلے اتوار محلّے داری پر بات کریں گے۔ اپنی قیادت خود کرنے کی فکر۔ ملک میں افراتفری پیدا کرنے والے حکمرانوں سے نجات کی۔

تازہ ترین