• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران کی زبان کی پھسلن اور حسِ دُشنام پہ اِک ہنگامہ بپا ہے۔ کوئی اسے فرائیڈین چُوک (Freudian Slip) قرار دے کر صفائیاں دیتے نہیں تھک رہے۔ بہت سے اُن کے لاشعور میں دبی حسرتوں کا نکاس یا پھر کچھ اسے ان کا اوڈیپس کامپلیکس (Oedipus Complex) یا باپ سے زیادہ ممتا کی ستائش کا اسیر ہونا قرار دے رہے ہیں۔ لیکن بڑا فکری ہنگامہ تب کھڑا ہوا جب عمران خان نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین جواں سال بلاول بھٹو زرداری کو ’’صاحبہ‘‘ کے لاحقے سے اپنے تئیں مضحکہ اُڑانے کی کوشش کی۔ بس پھر کیا تھا خواتین رہنمائوں نے اسے عورت کی تذلیل قرار دے کر عمران خان کی پدر شاہانہ اور جنسیانہ (Sexist) ذہنیت کی مذمت میں آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ اب سیاسی کلچر کچھ ایسا مغلظائی ہو گیا ہے کہ انسان کس کس کی بدکلامی اور گند ذہنی کا ماتم کرے۔ ویسے بھی مرد شاہی معاشرے میں مردانگی، جارحیت اور طاقت وری کی ستائش کی جاتی ہے اور نرم گوئی، محبت اور دلسوزی کو زنانہ خصوصیات قرار دینے کی بیماری ہے۔ قدیم تائو ازم میں ہر انسان میں دو بنیادی رویوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ین (Yin) کا رویہ نسوانی ہے جو محبت، اخلاص، نرمی، لطافت اور رحم کے وصائف پر مشتمل ہے جبکہ یانگ (Yang) کا مردانہ وار رویہ جارحانہ، جنگجو، غصیلا اور مسابقانہ ہے۔ اس قدیم فلسفے کے مطابق ہر مرد و زن میں یہ دو متضاد رویے کم و بیش موجود ہوتے ہیں۔ ین یعنی نرمی خواتین میں زیادہ اور یانگ یعنی جارحیت مردوں میں حاوی ہوتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین منفعل اور مرد بہت فعال ہوتے ہیں۔ جدید دور کے عظیم نفسیات دان کارل گستاف یُنگ (Karl G. Jung) نے ہر انسان میں دو رویوں کی وحدت اضداد کی نشاندہی کی ہے۔ ایک رویہ اینی ما (Anima) کا ہے جو زیادہ نسوانی ہے جو زیادہ یگانگت، محبت، ایثار اور دلجوئی کا ہے اور مثبت ہے۔ اس کے برعکس مردانہ رویہ میں جارحیت، سنگدلی، حاکمیت اور سخت گیری حاوی ہے۔ یُنگ کے مطابق عورتوں میں ہمت، برداشت اور مقابلہ کی صفات بھی ہوتی ہیں اور اسی طرح مردوں میں بھی شفقت، نرمی اور قربانی کے اوصاف ہوتے ہیں، کسی میں کم کسی میں زیادہ۔ یہ محض سماجی و ثقافتی اور صنفی تعصب (Gender Prejudice) ہے جس کا اظہار پدر شاہی رویوں کا شکار لوگ کرتے ہیں، عورتوں کو حقیر جانتے ہیں اور نرم گو، مودب اور دانش مند لوگوں کو ’’زنخا‘‘ قرار دے کر دراصل اپنے ہی کسی احساسِ کمتری کی تشفی کرتے ہیں۔ اگر اس پیرائے میں عمران خان کی جانب سے بلاول کو بلاول صاحبہ کہنے کا تزکیہ نفسی (Psycho Analysis) کیا جائے تو اُن کی شخصیات کے دلچسپ پہلو سامنے آتے ہیں۔ عمران خان بظاہر بہت جارحانہ، خود سر اور نرگسیت پسند ہیں جو اُن کی کسی اندرونی کیفیات یا احساسِ کمتری کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنی والدہ محترمہ شوکت خانم سے گہری جذباتی وابستگی کا مظہر بھی ہے جن کے نام سے اُنہوں نے کینسراسپتالوں کی داـغ بیل ڈالی۔ اُن کی ذاتی زندگی بارے بہت سے متضاد میلانات سامنے آتے ہیں۔ لیکن مدمقابل توانا نوجوان کو اپنی سرشت میں صنفی تحقیر کا نشانہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی پوشیدہ کمزوری کو چھپاتے ہوئے اپنی برتری کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس رویہ کو صنفی تعصب اور عورتوں کی تضحیک قرار دے کر خواتین رہنمائوں کا احتجاج جائز ہے۔ دوسری جانب والد کی اسیری کے دوران بلاول کی پرورش محترمہ بے نظیر بھٹو نے یکا و تنہا کی۔ جذباتی، احساساتی اور انسانی رویوں میں بلاول اپنی ماں پر زیادہ ہیں۔ اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی سحر انگیز شخصیت کے سیاسی وارث کو طاقت بھی اپنی ماں کے نقشِ قدم پر چلنے سے ملتی ہے۔ بی بی کی شفقت، ملنساری، ایثار اور دانشمندی کی جھلک بلاول میں بہ درجۂ اُتم نظر آتی ہے۔ اُنہیں اپنی دھیمی، سنجیدہ اور متین شخصیت کو برقرار رکھنا چاہیے اور سفلی مردانہ جارحیت سے عمران خان کی بدکلامی کا جواب نہیں دینا چاہیے۔ بلاول میں بھٹو صاحب کی صورت اور بی بی کی سیرت زیادہ نظر آتی ہے اور ان سا پُرزور لیڈر پاکستان میں کہاں پیدا ہوا۔ بات زبان کی پھسلن سے شروع ہوئی تھی۔ ظاہر ہے عمران خان کو یقیناً یہ معلوم تھا کہ فرانس کا ہمسایہ جرمنی ہے نہ کہ کئی سمندر پار جاپان۔ اُن پر اپوزیشن کا یہ الزام کہ اُنہوں نے ایران میں ہونے والی دہشت گردی کی ذمہ داری پاکستان کی سرزمین سے ہونے کا اعتراف کر کے جانے کون سی قیامت ڈھا دی ہے۔ حالانکہ اُنہوں نے پاکستان میں ایران سے ہونے والی دہشت گردی کو روکنے کی بات بھی کی تھی۔ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کرنے کا عزم اور اصرار ہماری متفقہ قومی پالیسی ہے۔ اس سے انحراف کے خلاف سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری بھی نبرد آزما رہے ہیں۔ اس وقت بھی بلاول بھٹو زور شور سے کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے صفائے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور عمران خان نے بھی ایران کے دورے کے دوران یہی باتیں کی ہیں۔ لیکن سیاسی مخالفت میں ایک دوسرے کو ملک دشمنی کے طعنے اُس متفقہ قومی مقصد کو کمزور کرتے ہیں جو پوری قوم نے نیشنل ایکشن پلان کی حمایت سے اختیار کیا ہے۔ سب جماعتوں کو خطے میں امن، دہشت گردی کے خاتمے اور علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے لیے متفقہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اپوزیشن کے مطالبے پر پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی کی تشکیل اسی جانب ایک اچھی پیش رفت ہے۔ بہتر ہوگا کہ اس کی قیادت خود وزیراعظم کریں۔ زبان کی ایک آدھ بار پھسلن تو نظر انداز کی جا سکتی ہے، لیکن جب وزیراعظم اس کا بار بار اظہار کرے تو ملک کے لیے جگ ہنسائی کا سامان بن جاتا ہے۔ ابھی کل ہی بیجنگ میں اپنے خطاب میں وزیراعظم نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ پانچ برسوں میں خیبرپختونخوا میں پانچ ارب درخت لگائے گئے ہیں جبکہ دس کروڑ درختوں کا نام و نشان ڈھونڈنا بھی مشکل پڑ رہا ہے۔ ایسے دعوے تمسخر کا نشانہ بنتے ہیں۔ کرپشن کرپشن کا شور مچانا عمران خان کو داخلی سیاست میں تو شاید سوٹ کرتا ہے لیکن عالمی فورم پہ اس کا اتنے زور شور سے ذکر اپنے چینی میزبانوں کو شرمندہ کرنے والی بات ہے۔ کیا وہ چینی قیادت کو یہ جتلا رہے تھے کہ سی پیک منصوبوں میں بڑے گھپلے ہوئے تھے؟ جو ظاہر ہے دو پارٹیاں مل کر ہی کر سکتی تھیں۔ خان صاحب کو آدابِ سیاست تو کس نے سکھانا ہیں، کوئی اُنہیں آدابِ سفارت کاری ہی بتا دے تو مملکتِ خداداد کے لیے اچھا ہوگا۔ زبان کی پھسلن اور صنفی و جنسی تعصب پہ اگر ہنگامہ بپا ہے تو اچھا ہے۔ شرمندہ وہ ہو جس نے شرمندہ کرنے کی کوشش کی کہ عورت کا حوالہ باعثِ تکریم ہے وجۂ شرمندگی نہیں!

تازہ ترین