• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بے سروپا الزامات، گمراہ کن پروپیگنڈے، حوصلہ شکنی کی منظم مہم، دہشت گردی کے خطرات اور خون کو منجمد کرنے والی شدید سردی میں چار روز سے جاری دھرنا پامردی، استقامت اور نظم و ضبط کا ایسا مظاہرہ ہے جس کی داد اگر ہم اپنے تعصبات اور گروہی مفادات کی بناء پر نہیں دے سکتے تو کم از کم سنگ زنی سے گریز کرنا چاہیے یہ ایثار پیشہ لوگ تعریف و اعتراف کے مستحق ہیں۔
چندسو کی جلسی کے دوران ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونے ، قیمے کے نانوں پر لڑنے اور میڈیا کے کیمرے، ٹریفک کے سگنلز اور دکانوں کے شیشے توڑنے والے کارکنوں پر ناز کرنے والی جماعتوں کو غورکرنا چاہیے۔ انہوں نے برسوں تک اپنے کارکنوں اور عوام کا مزاج کس قدر بگاڑا اور ان تمام کی تنقید و کردار کشی کا ہدف بننے والے ایک ”کینیڈین پلٹ“ لیڈر نے اپنے کارکنوں، پیروکاروں اور عوا م کو کیا سبق دیا۔
کم و بیش ایک لاکھ افراد کامطالبہ کیا ہے؟ الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنا کہ وہ امیدواروں کی جانچ پڑتال کے دوران ٹیکس چوروں، قرضہ خوروں، بدنام زمانہ لٹیروں، جھوٹوں، خائنوں اور جعلی ڈگری ہولڈرز کو انتخابی عمل سے خارج کر سکے۔ موجودہ حکومت نے ملک کی معیشت کو تباہ اور سیاسی و سماجی ڈھانچے کو برباد کردیا ہے ۔ قومی سلامتی اور آزادی خطرے میں ہے رٹ آف سٹیٹ غائب اور بری حکمرانی کی وجہ سے عام آدمی کا جتنا محال ہوگیاہے اس لئے موجودہ حکومتوں اورر اسمبلیوں کو تحلیل کرکے ایک غیر جانبدار، غیر متنازعہ اور اہل نگران حکومت قائم کرکے شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ ان میں سے کوئی مطالبہ ناجائز ، غیر قانونی اور خلاف آئین نہیں ۔
مگر موجودہ جعلی شقی القلب جمہوریت کے سارے ٹھیکیداروں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور انہوں نے صف بندی کرلی ہے۔ ہر فرعون، نمرود، قارون اور یزید پر کپکپی طاری ہے اور سب کو اپنا اقتدار ڈولتا اور حرام کی لوٹی ہوئی دولت دوبتی نظر آ رہی ہے۔ طاہر القادری کے عیب سب کو نظر آ رہے ہیں۔ اپنے گھناؤنے قومی جرائم پرکسی کی نگاہ نہیں۔
پانچ سال تک قوم کے سامنے زرداری ٹولے کی بداعمالیوں،خیانت مجرمانہ، آئین گریزی، لوٹ مار اور عدلیہ دشمنی کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بعد کسی کو نہ تو گو زرداری گو کا نعرہ یاد رہا ہے اور نہ زر بابا چالیس چوروں کا مکروہ چہرہ۔ عدل کے صاحب اولاد ہونے کا وقت آیا ہے تو ہر کوئی کوچہ و بازار میں جنے ظلم کے بچوں کو پچکارنے لگا ہے۔ صحت و سلامتی اور بڑا ہونے کی دعائیں کرنے لگا ہے حالانکہ یہ وقت تھا کہ دھرنے میں شامل بچوں، بوڑھوں، مردو خواتین کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے والی حکومت پر دباؤ بڑھا کر نگران حکومت کے فوری قیام اور انتخابی اصلاحات پر مجبور کیا جاتا۔ موجودہ مکروہ نظام کو بچانے کے بجائے اس شدید خطرے کا ادراک و احساس ہر محب وطن، صاحب درد اور انسان دوست فرد کو ہونا چاہیے جس سے یہ ہزاروں افراد دو چار ہیں مگر یوں لگتا ہے کہ سارے ”جعلی جمہوریت پسندوں“ میں عبدالرحمن ملک کی روح حلول کرگئی ہے اور وہ کسی ناخوشگوار واقعے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ انہیں نوحہ گری اور طاہر القادری کے خلاف طعنہ زنی کا مزید موقع مل سکے۔ ہم خدا کو بھول گئے ہیں صرف خلق خدا کو اذیت سے دو چار کرنا یاد رہ گیا ہے۔
خدا کا شکر ہے عمران خان نے مصلحت کی چادر اتاری اور سات نکاتی ایجنڈا پیش کرکے اپنے آپ کوتبدیلی کے خواہش مند دھرنے کا ہمدرد ثابت کیا مگر مردار جانوروں کو کنویں سے نکالنے کے لئے انہیں مزید ایک قدم بڑھانا ہوگا۔ اپنے ارد گرد موجود سٹیٹس کو کے حامیوں اور دوسری جماعتوں کے گماشتوں کے مصلحت پسندانہ تجزیوں کے بجائے یوتھ کے جذبات و احساسات کا ادراک کرنا پڑے گا۔ شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور حامد خان کے بجائے مخدوم جاویدہاشمی اور حفیظ اللہ نیازی کے مشوروں کو اہمیت دینی چاہیے۔ سٹیٹس کو کے سارے حامی متحد ہیں ڈاکٹرطاہر القادری نے کوئی اور کارنامہ انجام دیا یا نہیں ”مک مکا“ کا پردہ چاک کردیا اب موجودہ غلیظ، بدبو دار اور سیاسی ، معاشی اورانتخابی ڈھانچے کے مخالفین کواپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد سے باہر نکل کر باہمی اتحاد و اتفاق سے ایک دوسرے کی قوت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ عمران خان آستین کے ان سانپوں کو پہچانیں جو انہیں قوت فیصلہ سے محروم، مستقبل بنی کے وصف سے عاری، نرگسیت پسندی کا شکار اور بلاشرکت غیرے اقتدار کا بھوکا سیاستدان ثابت کرنے کے لئے ایک عوامی تحریک سے دور رہنے کا مشورہ دے کر قوم کی منزل کھوٹی کر رہے ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری کا ملاپ گرتی ہوئی دیواروں کے لئے آخری دھکا ہوگا ور جعلی شقی القلب جمہوریت پر گرنے والا سکائی لیب،اس اتحاد سے آزادی اور مضبوط الیکشن کمیشن،غیر جانبدار نگران حکومت اور شفاف انتخابات کی ضمانت مل سکتی ہے اور امریکی اشارے پر وجود میں آنے والے مفاداتی گٹھ جوڑ، مک مکا کا خاتمہ ممکن ہے۔ عدالتی فصلوں پر عملدرآمد اور لٹیروں کی گرفتاری و احتساب کوبھی یہی اتحاد یقینی بناسکتا ہے۔ یہی نوجوان چاہتے ہیں اور اس سے اشرافیہ خوفزدہ ہے۔ اگر عمران خان اور تحریک انصاف کو یہ خوش فہمی لاحق ہے کہ (خدانخواستہ) طاہر القادری کی ناکامی کے بعد وہ لانگ مارچ کر پائیں گے تو ایں خیال است و محال است و جنوں۔ پھر انہیں 2008ء کو طرح الیکشن کے بائیکاٹ کی تیاری کرنی چاہیے تاکہ نوجوانوں کی توانائی، امیدواروں کا سرمایہ اور عمران خان کا وقت ضائع نہ ہو یہی وقت وہ بچوں کو دے سکتے ہیں۔ مجھے سیاسی اور مذہبی قوتیں معاف رکھیں۔ ہزاروں افراد نے اسلام آباد میں جمع ہو کر قوم کو اس متعفن اور انسان دشمن نظام سے نجات دلانے کے لئے جو قربانی دی ہے فرض کفایہ اور کیا ہے اس کا اعتراف نہ کرکے وہ ناشکری کی مرتکب ہوئی ہیں اور خدا نہ کرے کہ اس ناشکری کی سزا ہمیں جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی گرفت مضبوط ہونے کی صورت میں ملے جو اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے عدلیہ اور میڈیا پر وار کریں گے۔ قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ تو ان کا پیدائشی حق ہے۔
تازہ ترین