• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہی ہوا، جو ہونا تھا، میاں صاحب کی سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست، حسبِ توقع سائل نواز شریف کا کہنا ’’میرا علاج پاکستان میں ممکن نہیں، علاج لندن کروانا، باہر جانے پر پابندی ختم کی جائے، 6ہفتوں کا وقت کافی نہیں، ضمانت میں توسیع کی جائے، سائل کی صحت ایسی کہ مزید علاج، وقت کی ضرورت‘‘ 16صفحات کی درخواست، شریف میڈیکل سٹی کے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ، 6ملکی، 4غیر ملکی ڈاکٹروں کی رائے، بتایا جا رہا میاں صاحب مہلک، جان لیوا بیماریوں میں مبتلا، ان کی دو ہارٹ سرجریاں ہو چکیں، 7اسٹنٹ ڈالے جا چکے، روزانہ 17دوائیاں کھا رہے، میاں صاحب کے دل، دماغ کی شریانیں بند، دماغ کی چند شریانیں سکڑ چکیں، وہ دل، دماغ کی بیماری لمف نوڈیا کے مریض، انہیں دل کی دھڑکن کے مسائل، وہ گردوں کے مریض، گردوں کی شریانیں سوجی ہوئیں، انہیں ٹائپ ٹو شوگر بھی، دن میں دوبار انسولین لیں، انہیں بلڈ پریشر بھی، گردن کی شریانوں میں سوزش بھی، شریانوں کا علاج ریڈو سی اے پی جی، یہ جدید علاج پاکستان میں نہیں، شاک ویوآئی وی ایل کی سہولت بھی پاکستان میں میسر نہیں، دل کی دھڑکن کیلئے بھی جدید ای پی لیب کی ضرورت، انہیں معدے کے مسائل، نیند کی پیچیدگیاں بھی، نواز شریف گزشتہ دو سالوں میں شدید دباؤ، اضطراب میں، ذہنی دباؤ، اعصابی تناؤ نے جسمانی، نفسیاتی طور پر خطرناک صورتحال پیدا کر رکھی، حتیٰ کہ کارڈیک موت کا خطرہ بھی، میاں صاحب کو پُرسکون ماحول چاہئے، جس میں وہ مکمل سکون سے علاج کروا سکیں، یہ تو تھی نظر ثانی درخواست۔

اب یہ رہنے دیں نواز شریف کتنے بیمار، جو کچھ بتایا جارہا وہ حقیقت یا افسانہ، وہ واقعی اتنے بیمار یا یہ سب کیس کو مضبوط بنانے کیلئے کیا جا رہا، اسے بھی رہنے دیں کہ اتنی بیماریاں ہوں، بندے کو ریٹائر ہو جانا چاہئے یا پارٹی صدارتیں، سیاسی ملاقاتیں، اتنی بیماریاں ہوں اور 6ہفتے کا ریلیف لے کر 30دنوں میں صرف 3بار اسپتال جانا، بیماریاں کھنگالنا، بیماریوں پر بات کرنا، اچھا نہیں لگتا، لہٰذا یہ رہنے دیں، ہاں البتہ چند باتیں ضرور کرنیں، پہلی بات، نواز شریف 3بار وزیراعظم، 2مرتبہ وزیراعلیٰ رہے، بھائی شہباز شریف 3دفعہ وزیراعلیٰ، پنجاب میں رنجیت سنگھ کے بعد سب سے زیادہ حکمرانی ہاؤس آف شریفس کی، لیکن ایک ایسا اسپتال نہ بن سکا جہاں نواز شریف کا علاج ہو سکے، ایک ایسا ڈاکٹر نہیں جو میاں برادران کا علاج کر سکے، یہ ہماری صحتوں کے ذمہ دار، ہمیں صحت کی سہولتیں دینا تھیں، لیکن ہمیں یہ لارے لگاتے، جھوٹ کہانیاں سناتے رہے اور خود باہر جائیدادیں بناتے، اولادیں سیٹل کرتے اور ڈاکٹر لارنسوں سے علاج کرواتے رہے، اب پتا چلا ان کی نظر میں ہماری حیثیت کیا اور ہمارے اسپتال ڈنگر اسپتال کیوں بن چکے۔

دوسری بات، شرم آ رہی، کل تک وہ تمام لیگی سیاستدان جو بات بات پہ کہا کرتے، کون کہہ رہا میاں صاحب لندن جانا چاہ رہے، بند کریں یہ پروپیگنڈہ کہ میاں صاحب کو لندن سے علاج کروانا، ان سب شیر جوانوں نے کمال ڈھٹائی سے اب باجماعت یہ کہنا شروع کر دیا، میاں صاحب کو لندن جانے کی اجازت دی جائے، جہاں سے پہلے علاج کروایا، وہاں سے علاج کروانا میاں صاحب کا حق، ایسی جھوٹی مخلوق، ایسی غلامی، دیکھی نہ سنی، کیا نصیب پایا، نواز شریف صاحب، زرداری صاحب جیسوں نے، مفتو مفت کروڑوں غلام، لٹ لٹ کر نہ تھکنے والے، کمال بلکہ سوپر ڈوپر کمال، تیسری بات یہ، کیا کمال چالاکی، مکاری سے میاں اینڈ کمپنی نے چالیں چلیں، سزا ہوئی، یکایک ایک کے بعد ایک بیماری سامنے آنے لگی، علاج کے نام پر حکومت پر چڑھائیاں ہوئیں، کمال خوبصورتی سے معاملے کو سیاسی رنگ دیا گیا، کمال مہارت سے چار چار اسپتالوں کے علاج، معائنوں، میڈیکل بورڈوں ہر شے سے کیڑے نکالے گئے، میاں صاحب کی تضحیک ہو رہی، سیاسی انتقام لیا جا رہا، کمال منظم پروپیگنڈہ کیا گیا، مریم نواز کا سوشل میڈیا، اپنا قومی میڈیا، جس سے جو کام لینا تھا، کمال ہنرمندی سے لیا گیا، ایسی ایسی ایمرجنسیاں، ایسے مظلومیت بھرے نوحے، مقصد طبی بنیادوں پر جان خلاصی، چالیں کامیاب، نہ صرف کرپشن پر سزا یافتہ مجرم کو 70سالہ عدالتی تاریخ میں انوکھا 6ہفتے کا ریلیف ملا بلکہ اب یہی مجرم کہہ رہا مجھے لندن بجھوایا جائے۔

آخری بات، کتنی سمجھدار بیماریاں، شہباز شریف یہاں تھے، اتنے بیمار، منسٹر کالونی بنگلے سے نکلنا مشکل، احتساب عدالت نہ جا پاتے، کمر درد، ٹانگیں سوجی ہوئیں، ریڑھ کی ہڈی کا مسئلہ، ایکسرے، فزیو تھراپیاں، میڈیکل بورڈ، معائنے، ٹیسٹ، موصوف اب لندن میں، ایسے ہٹے کٹے، کبھی شاپنگ مال میں دوڑیں لگا رہے، کبھی برگر کھانے فوڈ کورٹ پہنچے ہوئے، کبھی فٹ پاتھوں پر چہل قدمیاں، کبھی بسوں، ٹیکسیوں کے سفر، ایسے تیز، پھرتیلے، حسد کرنے کو جی چاہے، ویسے لندن میں اکیلے گھومتے پھرتے خادم اعلیٰ کو دیکھ کر بار بار یہ خیال آئے، پاکستان ہو تو ہٹو، بچو، پروٹوکول، سیکورٹی حصار، 30تیس گاڑیوں کے کارواں، یہاں تو یہ بھی ہو چکا، نواز شریف، شہباز شریف حتیٰ کہ اہلِ خانہ چارٹرڈ فلائٹ پر لاہور ائیر پورٹ پر، وہاں سے ہیلی کاپٹر پر جاتی امرا، شہباز شریف نے تو سرکاری ہیلی کاپٹر کو گدھا گاڑی بنائے رکھا، انتخابی تقریروں میں یہ کہنے والے شہباز شریف ’’میں آپ کا خادم نیا ہیلی کاپٹر خریدے، مجھ پر خدا کی لعنت، میں پیدل، موٹر سائیکل، سائیکل پر سفر کرلوں گا، نیا ہیلی کاپٹر نہیں لوں گا‘‘، وزیراعلیٰ بنتے ہی نہ صرف ایک کروڑ پرانے ہیلی کاپٹر کی مرمت پر لگائے، نیا ہیلی کاپٹر بھی لے لیا، 36کروڑ لگا دیئے اندرونِ ملک دوروں پر، نہ صرف ایک کروڑ اپنے ہیلی کاپٹر پائلٹ کو پکڑا کر کہا جاؤ بیرون ملک ٹریننگ کر آؤ بلکہ اپنے ہیلی کاپٹر کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کا ہیلی کاپٹر بھی ایسے استعمال کیا کہ بل بنا 12کروڑ 16لاکھ کا، بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہو رہا تھا، میاں صاحب کی نظر ثانی درخواست کا، معاملہ عدالت میں، فیصلہ عدالت نے کرنا، مجھے صرف اپنے میاں صاحب کا شکریہ ادا کرنا، آپ میری توقعات پر پورا اترے، لٹ مار، جھوٹوں، یوٹرنوں مطلب جناب اسپیکر، ایون فیلڈ ریفرنس سے العزیزیہ ریفرنس، اڈیالہ سے کوٹ لکھپت اور 6ہفتے ریلیف سے نظر ثانی درخواست تک، جو کچھ آپ نے کیا، مجھے آپ سے یہی توقع تھی، انقلاب، مزاحمت، ووٹ کو عزت دو تو ناٹک، ڈرامہ، شکریہ سر، آپ جو ہیں، وہی کر رہے، مشرف سے ڈیل کر کے سعودیہ جانے لگے تو صحت خراب تھی، اب پھر صحت خراب، بس یہی کہنا، سر! اللہ آپ کو صحت دے۔

تازہ ترین