• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کی نئی معاشی ٹیم کے بارے میں لکھنے سے پہلے ضروری ہے کہ تجزیہ کیا جائے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر اسد عمر کو وزیرِ خزانہ کے عہدے سے ہٹایا گیا کیونکہ دراصل یہ حکومت کی 8ماہ کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ عمران خان نے 8سال پہلے ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ اُن کی حکومت آنے پر اسد عمر ہی وزیر خزانہ ہوں گے اور اِس دوران وہ اسد عمر کو پاکستان کے اقتصادی بحران کا نجات دہندہ بناکر پیش کرتے رہے۔ اِس عرصہ میں اسد عمر کو ملکی معیشت کی صورتحال کے بارے میں بخوبی علم تھا کہ کرنٹ اور تجارتی خسارہ میں ریکارڈ اضافہ، ایکسپورٹس میں کمی، امپورٹس میں اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، روپے کی قدر پر دبائو، قرضوں میں بے انتہا اضافہ اور اُن کی ادائیگیاں وہ چیلنجز ہیں جن کو اُن کی ٹیم کو آکر ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہے لیکن اِس سلسلے میں کوئی ہوم ورک نہیں کیا گیا۔ اسد عمر کے دور میں معاشی سست روی، فیصلے نہ کرنا، غیر یقینی صورتحال، تاجروں میں خوف وہراس اور اسٹاک مارکیٹ میں مندی دیکھنے میں آئی۔ اُنہوں نے جب وزارت خزانہ کا چارج سنبھالا تو پاکستان اسٹاک ایکسچینج انڈیکس 42446پر تھا اور جب وہ رخصت ہوئے تو یہ انڈیکس 36811کی نچلی ترین سطح پر آگیا یعنی انڈیکس میں تقریباً 5635پوائنٹس کی کمی ہوئی، جس سے چھوٹے سرمایہ کاروں کا اربوں روپے کا مالی نقصان ہوا۔ اِسی طرح انٹربینک میں ڈالر 123.75روپے کا تھا اور اُن کے جاتے وقت ڈالر بھی 141.51روپے کی ریکارڈ سطح پر تھا۔ اُن کے دور میں اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 7.5فیصد سے بڑھ کر 10.7فیصد ہوگیا، جس کی وجہ سے بینکوں کے قرضوں کی شرح سود 9فیصد سے بڑھ کر 14فیصد ہو گئی، جس نے نئی صنعتی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا۔ اُن کے 8ماہ کے دور میں افراط زر یعنی مہنگائی 5.8فیصد سے بڑھ کر 9.4فیصد ہو گئی، جو پی ٹی آئی پر شدید تنقید کا سبب بنی۔ وزیر خزانہ اسد عمر کے ملکی معیشت کو آئی سی یو کہنے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا۔ کابینہ کی اکثریت نے اسد عمر کی ایمنسٹی اسکیم کی مخالفت کی جبکہ روپے کی قدر میں کمی سے ادویات، پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آگیا۔

حکومت کا یہ خیال تھا کہ روپے کی قدر کم کرنے سے ملکی ایکسپورٹس بڑھے گی لیکن ایسا نہ ہوا اور روپے کی قدر میں 35فیصد کمی کے باوجود ملکی ایکسپورٹس ایک فیصد بھی نہ بڑھ سکی۔ اسد عمر نے 8ماہ میں 3منی بجٹ پیش کئے لیکن اُس کے باوجود رواں مالی سال حکومت کو 450ارب روپے ٹیکس ریونیو کی کمی کا سامنا ہے۔ 2012میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنے والے اسد عمر کی حکمت عملی پارٹی نظریے سے مطابقت نہیں رکھتی تھی اور اپوزیشن کے دبائو پر اُنہیں پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے بھی غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اسد عمر نے آئی ایم ایف سے پیکیج کا اعلان کیا لیکن آئی ایم ایف نے اس کی تردید کردی جس سے حکومت کو شرمندگی اٹھانا پڑی اور بالاخر وزیراعظم کو ان کو ہٹا کر ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی قیادت میں نئی معاشی ٹیم لانا پڑی۔ اُن کی تبدیلی کا فیصلہ امریکہ میں ہونے والے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے اجلاسوں کی کارکردگی پر کیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کے اہم افسران کہتے ہیں کہ پاکستانی وفد کو اِس مرتبہ کافی نظر انداز کیا گیا۔ اُس کے علاوہ اسد عمر عالمی بینک اور آئی ایم ایف کو اپنی حکومت کا معاشی بحالی کے روڈ میپ سے مطمئن کرنے میں بھی ناکام رہے، جس کی وجہ سے عمران خان کو ایسے شخص کو وزارت خزانہ کا ذمہ دار بنانا پڑا جو اگرچہ پیپلزپارٹی کے وزیر خزانہ رہ چکے ہیں مگر عالمی مالیاتی اداروں میں اچھا اثر ورسوخ رکھتے ہیں تاہم پی ٹی آئی کے اہم رہنما اسد عمر کو وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے اچانک ہٹانے، اہم وفاقی وزراء کے قلمدانوں میں ردوبدل اور اُن کے نئے عہدے لینے سے انکار نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ اسد عمر کی آئی ایم ایف اجلاس سے واپسی پر میری ان سے ملاقات قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ہوئی تھی جہاں میں بجٹ اور ایمنسٹی اسکیم پر فیڈریشن کی طرف سے پریزنٹیشن دینے گیا تھا اور ان سے ملاقات کے دوران کسی کو یہ خیال بھی نہ تھا کہ ایک دن بعد وہ عہدے سے ہٹا دیئے جائیں گے۔ میرے خیال میں اِس وقت حکومت کو بجٹ، ایمنسٹی اور FATFجیسے اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ حفیظ شیخ ماہر معیشت دان ہیں اور معاشی پالیسیوں کا 30سالہ عالمی تجربہ رکھتے ہیں۔ حفیظ شیخ میرے اچھے دوست ہیں، مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور میں نے اُنہیں بزنس کمیونٹی کیلئے ہمیشہ مثبت پایا۔ مشیر خزانہ بننے پر میں نے اُنہیں دبئی فون کر کے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس کے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ میں ہمیشہ کہتا آیا ہوں کہ ملکی وزیر خزانہ ایک معیشت دان ہونا چاہئے۔ مسلم لیگ(ن) دورِ حکومت میں اسحاق ڈار چارٹرڈ اکائونٹینٹ اور پی ٹی آئی کے اسد عمر بزنس مینجمنٹ (مارکیٹنگ) وزیر خزانہ رہے اور دونوں ملک کو ایک معاشی روڈ میپ نہیں دے سکے۔ حفیظ شیخ کا شمار بہترین ماہر معاشیات میں ہوتا ہے۔ وہ ہاورڈ، کیمبرج اور بوسٹن یونیورسٹی سے منسلک رہے۔ حفیظ شیخ نجکاری میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں جبکہ وہ سعودی عرب کیلئے عالمی بینک کے معاشی امور کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ وہ 2003ء میں وفاقی وزیر برائے نجکاری اور 2010میں پیپلز پا ر ٹی دور میں وزیر خزانہ رہے جس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 140ڈالر فی بیرل پہنچ گئی تھی اور دنیا کی مستحکم ترین معیشتیں بھی بحران کا شکار ہو گئی تھیں۔

آج قومی خزانہ خالی ہے اور حکومت کو 1600ارب روپے کے گردشی قرضوں، خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے اور واپڈا کو چلانے کیلئے سالانہ 500ارب روپے اور ایکسپورٹرز کے کئی سالوں سے رکے ہوئے 300ارب روپے کی ادائیگیاں کرنا ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر 20ارب ڈالر کی سطح پر لانا، روپے کی قدر مستحکم رکھنا، قرضوں اور سود کی ادائیگیاں، ایکسپورٹس میں اضافہ، ریونیو کی وصولی کا ہدف پورا کرنا، آئی ایم ایف سے 6سے 8ارب ڈالر کے نئے قرضے موزوں شرائط پر لینا، پاکستان کو FATFکی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں جانے سے روکنا اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی کیلئے نئی ایمنسٹی اسکیم کا اعلان نئے مشیر خزانہ کو درپیش سنگین چیلنجز ہیں۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی وزیراعظم عمران خان سے معاشی فیصلہ سازی میں خود مختاری دینے کی درخواست کی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ ان شاء اللہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے۔

تازہ ترین