• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا باقاعدہ بجٹ پیش ہونے سے چند ہفتے قبل وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کی تبدیلی اور ان کی جگہ مشیر خزانہ کے طور پر ڈاکٹر حفیظ شیخ کی تقرری کی مثال ایسے ہی دی جا سکتی ہے جیسے کوئی کرکٹ ٹیم پہلی بار ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لئے وارم اپ ہو رہی ہو تو اچانک ہی شائقین کے شور شرابے پر کرکٹ ٹیم کے اوپننگ بیٹسمین کو ٹیسٹ کھیلنے سے روک دیا جائے اور یوں بارات کوئی اور لوٹ کر لے جائے جبکہ سبکدوش کئے جانے والے اوپننگ بیٹسمین (اوپننگ کھلاڑی) نے ٹیسٹ میچ کے لئے تمام کام پورے کر لئے ہوں۔ بہرحال اب موجودہ حکومت پہلا قومی بجٹ ماہِ مئی کے آخر میں پیش کرنے والی ہے جبکہ سبکدوش کئے جانے والے وزیر خزانہ تو ضمنی اور ترمیمی بجٹ پیش کرتے کرتے گھر رخصت ہو گئے۔ اب نئے مشیر خزانہ کی نگرانی میں نیا بجٹ پرانی دستاویز کی روشنی میں مرتب کیا جا رہا ہے۔ جس میں حکومت کو سب سے بڑا چیلنج محدود وسائل کے ساتھ ڈیٹ سروسز، دفاع اور غیر ترقیاتی اخراجات کے بعد سوشل سیکٹر، تعلیم، صحت اور انسانی وسائل کے شعبوں کے حوالے سے درپیش ہوگا۔ اگر عوام کو ریلیف میسر نہیں ہوتا تو یہ پی ٹی آئی کے منشور میں عوام سے کئے گئے وعدوں کی نفی ہو گی۔ اس لئے کہ عوام کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ایشوز پر یقینی طور پر بڑی تشویش ہے لیکن انہیں روزمرہ زندگی گزارنے کیلئے روٹی بھی تو چاہئے۔ جو تب ملتی ہے جب کارخانے چلتے ہوں اور تجارتی سرگرمیاں جاری ہوں۔ اس وقت کئی نامعلوم وجوہ کی بنا پر ان دونوں شعبوں میں وہ اطمینان بخش ماحول یا صورتحال نظر نہیں آ رہی جو کہ اصولی طور پر نظر آنا چاہئے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم عمران خان کو تمام اسٹیک ہولڈرز کیساتھ مشاورت سے ایسی حکمت عملی اپنانا ہوگی جس سے عوام حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہو سکیں۔ اب عوام کو مختلف تقاریر اور دعوئوں سے مطمئن کرنے کا دور گزر گیا۔ عوام نے بڑی ہمت کر کے دو مضبوط حکومتوں کے نظام کو نہ صرف ختم کیا بلکہ ان کے کرپشن اور لوٹ مار کے کارناموں کی بنیاد پر ان کی جگہ PTIکا انتخاب کیا لیکن خود PTIکے اراکین کی اکثریت بھی گورننس اور میڈیا مینجمنٹ کے حوالے سے پریشان نظر آ رہی ہے۔ آخر ان شعبوں پر توجہ بڑھانے اور انہیں ہینڈل کرنے میں کیا رکاوٹ ہے۔ اگر حکومت صرف ان دو چیزوں پر فوکس بڑھا دیتی ہے تو یقینی طور پر حکومت کے بارے میں مختلف حلقوں کی تشویش میں کمی اور عوام کو مطمئن کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسری صورت میں اپوزیشن پارلیمنٹ اور مختلف میڈیا چینلز پر شور ڈالتے ڈالتے سڑکوں پر آ سکتی ہے۔ چاہے اس وقت مسلم لیگ (ن) کی ساری قیادت لندن یا کسی اور ملک کی یاترا کر چکی ہو اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی مزید قانونی مشکلات سے دوچار ہو چکی ہو۔ اس کے باوجود عوام کو اگر روٹی یعنی روزگار نہ ملا اور ہر روز بڑھتی مہنگائی سے نجات نہ ملی تو صورتحال وہ نہیں رہے گی جو اس وقت حکمرانوں کو سب اچھا ہے کی شکل میں نظر آ رہی ہے۔ اسلئے نیا بجٹ بناتے وقت اس بات کا خیال کیا جانا چاہئے کہ کیا عوام مزید کئی ارب روپے کے ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کر سکیں گے؟ کیا مزید مہنگائی کا بوجھ ان پر ڈالنا قرینِ انصاف ہوگا؟ اسلئے معاشی معاملات حل کرنے کیلئے ٹیکسوں کی بنیاد وسیع کرنے کیلئے منصفانہ پالیسی بنانا چاہئے۔ تعلیم اور صحت اور عوام کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لئے عملی اقدامات کئے جانا چاہئیں۔ اس حوالے سے بال حکومت کی کورٹ میں ہے اور عوام امید لگائے اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ ان کے دن اور راتیں کب بدلیں گی۔

تازہ ترین