• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرپشن کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ جی ہاں۔ آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ کرپشن کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ کپتان اور کپتان کی ٹیم نے کرپشن اور بدعنوانی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ آپ بجا طور پر مجھے ڈانٹ پلا سکتے ہیں۔ آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیںکہ تجھے کیسے پتہ چلا کہ پاکستان میں کرپشن اور بدعنوانی کی کمر ٹوٹ چکی ہے؟ توکیا سی آئی ڈی قسم کے کسی محکمے میں بڑے عہدے پر لگا ہوا ہے؟ کیا تیرے پاس اندر کے راز جاننے اور سمجھنے کے لئے جنتر منتر ہے؟ تو بائولہ بالم کیا جانے کہ کرپشن کس بلا کا نام ہے۔ تو خواہ مخواہ کی بونگیاں مارنا بند کر کہ کرپشن کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ کوئی مائی کا لال کرپشن کرنے والوں کو روک نہیں سکتا۔ کرپشن سونامی ہے۔ اور سونامی کو روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

میں بہت کم ہنستا ہوں۔ مگر مخالفت برائے مخالفت کرنے والوں کی بےتکی باتیں سن کر مجھے بہت ہنسی آتی ہے۔ میں لوٹ پوٹ ہو جاتا ہوں۔ اس قدر میں تب بھی نہیں ہنسا تھا جب میری منجھلی ساس مر گئی تھی۔ وہ سینیٹر تھی۔ میری منجھلی ساس کی منجھلی ماں بھی سینیٹر تھی۔ وہ بھی مر گئی تھی۔ تب سینیٹ میں سوگ منایا گیا تھا۔ اسپیکر صاحب نے فرمایا تھا کہ ایک بے انتہا ذہین اور سلجھی ہوئی سینیٹر کی موت اصل میں سینیٹ کی موت ہوتی ہے۔ تب بھی میں بہت ہنسا تھا۔ اس کے علاوہ میں کم کم ہنستا ہوں۔ مگر کپتان کے روسیاہ رقیبوں کی بےسروپا باتیں سن کر مجھے بہت ہنسی آتی ہے۔ میں لوٹ پوٹ ہو جاتا ہوں۔

روسیاہ رقیبوں کی آنکھیں ہیں، مگر وہ دیکھ نہیں سکتے۔ روسیاہ رقیبوں کے کان ہیں، مگر وہ سن نہیں سکتے۔ روسیاہ رقیبوں کا منہ ہے اور منہ میں زبان بھی ہے مگر وہ منہ سے صرف بولنے کا کام نہیں لیتے۔ وہ منہ سے بولنے کے علاوہ منہ سے دیکھنے اور منہ سے سننے کا کام لیتے ہیں۔ اس لئے روسیاہ رقیب ٹھیک سے بول سکتے ہیں، نہ ٹھیک سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ ٹھیک سے سن سکتے ہیں۔ آپ ایک ہی وقت میں تین کام نہیں کرسکتے۔ مثلاً دوڑنا، اڑنا اور تیرنا، یہ تین کام آپ ایک ساتھ نہیں کرسکتے۔ روٹی کھانا، پانی پینا، اور ڈکار لینا آپ ایک ساتھ نہیں کرسکتے۔

روسیاہ رقیب کیوں نہیں دیکھتے کہ اس مرتبہ کپتان اور اس کی ٹیم نے کرپٹ لوگوں کے دانت کھٹے کرنے کے لئے ملک بھر میں لیموں کے لاکھوں پودے لگوا دیئے ہیں۔ گندم، چاول، دالیں اور سبزیاں اگانے والی زرعی زمین پر اب صرف لیموں اگائے جا رہے ہیں۔ یہ مہا تبدیلی آنے والی گرمی کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں لائی گئی کہ آپ چِل چلاتی دھوپ میں لیموں پانی سے لطف اندوز ہوسکیں۔ ریکارڈ توڑ لیموں کے پودے اس لئے لگوائے گئے ہیں تاکہ وقت آنے پر دنیا بھر کے کرپٹ لوگوں کے دانت کھٹے کر دیئے جائیں۔ کیا روسیاہ رقیب نہیں جانتے کہ ہم نے دنیا کے اس حصہ سے کرپشن اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ آپ میری سنیں اور میری بات کا یقین کریں کہ کرپشن کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ آپ مجھ سے بار بار مت پوچھیں، مجھے جھاڑ مت پلائیں کہ بوڑھا بالم تو کیسے جانتا ہے کہ ملک بھر میں کرپشن اور بدعنوانی کی کمر ٹوٹ چکی ہے؟ تو کیا مالیاتی معاملوں کا ماہر ہے؟ تو کیا بینکر ہے؟ تو کیا برآمدی اور درآمدی پیچیدگیوں سے واقف ہے؟ تو کیا ماہر اقتصادیات ہے؟

آپ کو جو کہنا تھا، آپ کو جو پوچھنا تھا، آپ پوچھ چکے۔ اب مجھے اجازت دیجئے کہ میں کچھ کہوں اور ثابت کر کے دکھائوں کہ کرپشن کی کمر کیسے ٹوٹ چکی ہے۔ آپ صبر اور تحمل سے میری آتم کتھا سنیں اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ اسی میں آپ سب کی بھلائی ہے۔

آپ ریڑھی چلاتے ہیں؟ میں جانتا ہوں کہ اخبار پڑھنے والے ریڑھی نہیں چلاتے۔ بیس بائیس کروڑ کی آبادی میں تمام اخباروں کی اجتماعی روزانہ سرکولیشن چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ مطلب یہ کہ بیس بائیس کروڑ کی آبادی میں اخبار پڑھنے والوں کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں ہے۔ اخبار پڑھنے والے ریڑھی نہیں چلاتے۔ باقی خلق خدا ریڑھی چلاتی ہے۔ آپ کا تعلق چونکہ اخبار پڑھنے والے قبیلے سے ہے، اس لئے آپ نہیں جانتے کہ ریڑھی چلانا کس کو کہتے ہیں۔ میں اخبار نہیں پڑھتا۔ اس لئے ریڑھی چلاتا ہوں۔ میں کبھی گنڈیریاں بیچتا ہوں، کبھی ریوڑیاں بیچتا ہوں۔ کبھی پیاز، کبھی آلو بیچتا ہوں۔ کبھی ٹماٹر بیچتا ہوں۔ ریڑھی دھکیلتے ہوئے گلی کوچوں میں پھیرے لگاتا رہتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے تک، بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ کپتان کے اقتدار میں آنے سے پہلے لامحالہ روزانہ میری ملاقات کرپشن سے ہوتی تھی۔ مشٹنڈے دندناتے ہوئے آتے تھے اور مجھ سے اور میری طرح ریڑھی چلا کر روزی کمانے والوں سے دیہاڑی وصول کر کے چلے جاتے تھے۔ ان کو نہ کوئی روک سکتا تھا اور نہ ٹوک سکتا تھا۔ روک ٹوک کرنے والوں کو دیہاڑی سے بہت بڑا حصہ ان کو گھر تک پہنچایا جاتا تھا۔ روک ٹوک کرنے والوں کی بیگمات جیولری اور ملبوسات کی بے تحاشا خریداری کرتی تھیں۔ لاکھوں کروڑوں کے بل بھتہ وصول کرنے والوں کے سرغنہ بھرتے تھے۔ روک ٹوک کرنے والوں کے لئے عمرہ، حج اور یورپ میں سیر سپاٹے اور دبئی سے شاپنگ کرنے کے ٹکٹ اور ہوٹلوں میں طعام اور قیام کا بندوبست بھی بھتہ وصول کرنے والوں کے مکھیا کرتے تھے۔ یہی حال ڈھابہ چلانے والوں کا تھا۔ یہی حال چناچور گرم بیچنے والوں کا ہوتا تھا۔ چھوٹے موٹے پنساری اور ٹافیاں اور بسکٹ بیچنے والے بھتہ دیتے دیتے کبڑے اور ادھ موئے ہوگئے تھے۔ گلی کوچوں میں راج کرنے والی کرپشن نے پوری قوم کو کبڑا اور کمزور کر دیا تھا۔ پوری کی پوری قوم سوائے ایک فیصد سے کم اخبار پڑھنے والوں کے، کھانستی رہتی تھی۔ یہ تھی بھیانک کل کی بات۔

خدا بھلا کرے ہمارے کپتان کا۔ ان کے آنے کے بعد قوم نے کھانسنا چھوڑ دیا ہے۔ اب قوم میں کبڑے نظر نہیں آتے۔ قوم توانا بن چکی ہے۔ کپتان نے کرپشن کی کمر توڑ کررکھ دی ہے۔

تازہ ترین