• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کو اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین مالی اور آبی بحران کا سامنا ہے۔ 2008ء میں آنیوالی پیپلز پارٹی کی حکومت اور 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی مسلم لیگ نواز کی حکومت، دونوں نے پانچ پانچ سال مکمل کئے اور دس برسوں میں 60؍ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ بڑھا دیا۔ 1947ء سے لیکر 2007ء تک غیر ملکی قرضوں کا حجم 37؍ارب ڈالر تھا جو ان دونوں جماعتوں کے دس سالہ دورِ اقتدار میں بڑھ کر 97؍ارب ڈالر تک پہنچ گیا، ان حالات کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو دونوں جماعتیں ملکی خزانہ خالی ہونے اور غیر ملکی قرضوں کے بوجھ کی ذمہ دار رہی ہیں۔ بظاہر صورتحال آج بھی مختلف نظر نہیں آتی۔ وزیراعظم عمران خان معیشت کی بحالی اور سابقہ حکمرانوں کی لوٹ مار کے بعد ملک کو بہتری کی جانب لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قرضوں کا یہ بوجھ ریاست پاکستان کو کسی بڑے حادثے سے دوچار کر سکتا ہے۔ دوسری جانب عمران خان کی حکومت کی معاشی کارکردگی کا حال یہ ہے کہ پچھلے 8؍ماہ میں پاکستانی کرنسی کی ویلیو میں 36؍فیصد کمی آئی ہے۔ مسلم لیگ نواز کے دور میں ڈالر 105؍روپے کا جو نواز حکومت کے خاتمے تک گر کر115 کا ہو گیا، اب 142روپےتک پہنچ گیا ہے جبکہ 150روپے تک جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ جس سے مہنگائی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، اسی طرح گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ، دالوں اور سبزیوں، دودھ اور ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ غرض کوئی شے نہیں جس کی قیمت میں اضافہ نہ ہوا ہو۔ اس مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل بنا دیا ہے اور ان کی چیخیں آسمان تک پہنچ گئی ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور ملائیشیا کی جانب سے امداد اور تعاون کے باوجود صورتحال کو ریاست پاکستان کیلئے زلزلہ اور عوام کیلئے خطرہ کی گھنٹی قرار دیا جا سکتا ہے۔

ایک طرف غیر ملکی قرضے دوسری جانب بدترین آبی بحران کا سامنا ہے۔ سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی آئندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہو گی۔ آج حالات بتا رہے ہیں کہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ بھارت کی آبی جارجیت کو دیکھتے ہوئے پاکستان کیلئے نئے آبی ذخائر کی تعمیر بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ مستقبل میں پانی کی کمی سے بچائو کیلئے آبی ذخائر کی تعمیر کے ساتھ ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی خاطر غیر ملکی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنا، دیا میر بھاشا اور مہمند ڈیم بنانے کی ضرورت ہے، جس کیلئے ہچکولے کھاتی ہوئی معیشت سے چھٹکارا اسی صورت میں ممکن ہے جب پاکستان کے وسائل سے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور ڈیم بنانے کیلئے عوام سے مدد لی جائے۔ اس ضمن میں میں نے اپنے چالیس سالہ سیاسی تجربے کا نچوڑ 3؍اکتوبر 2018ء کو کراچی پریس کلب میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے ذریعے کچھ تجاویز کی شکل میں پیش کیا تھا، وہ تجاویز یہ تھیں کہ بجلی، گیس، پی ٹی سی ایل اور موبائل فون کے ہر بل پر 100؍روپے کا (ٹیگ) لگا دیا جائے جو ہر ماہ ہر گھر، مالک خواہ رہائشی ہو یا تجارتی، ہوٹلز، دکاندار بڑا ہو یا چھوٹا ادا کرے، اسی طرح پراپرٹی ٹیکس جو سالانہ آتا ہے اس پر بھی 100؍روپے کا ٹیگ لگایا جائے جو غیر ملکی قرضے اتارو اور ڈیم بنائو کے نام پر وصول کیا جائے، اس سے سالانہ تین سے چار کھرب روپے بآسانی حاصل ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح میری دوسری تجویز یہ تھی کہ نیشنل سیونگ سینٹر جن کی پاکستان بھر میں ساڑھے تین سو برانچیں ہیں، میں ’’قرض اتارو ڈیم بنائو‘‘ میں سرمایہ کاری کرنے والے کو تین فیصد اضافی ماہانہ منافع دیا جائے مگر اس کے ساتھ ہی اس سرمائے کو کیش کرنے پر دس سال کی پابندی لگائی جائے۔ اس سے بھی 20؍سے 25؍کھرب روپے حاصل ہوں گے۔ یہ تجاویز ممکن اور قابلِ عمل بھی ہیں لہٰذا ان پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

ان تجاویز کے ذریعے پاکستان اپنے غیر ملکی قرضے بھی اتار سکتا ہے اور ڈیم بھی بناسکتا ہے۔

تازہ ترین