• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جلیانوالہ باغ کا سانحہ برطانوی ہند کی تاریخ میں ایک شرم ناک باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ہمیں اس سانحے پر دِلی صدمہ ہے اور ہم اس سلسلے میں معافی کے خواست گار ہیں۔‘‘یہ الفاظ ہیں برطانوی وزیر ِاعظم، تھریسا مےکے،جو تقسیم ِہند سے برسوں پہلے پیش آنے والے الم ناک سانحے پر افسوس کا اظہار کر رہی ہیں۔ یہ افسوس کیوں؟ اور وہ بھی سو برس بعد؟اس کا جواب یہ ہے کہ آج کی دنیا اکیس وِیں صدی کی ہے ، جو اپنے آپ کو متمدّن ثابت کرنے پر تُلی رہتی ہے۔اس دنیا کی وہ اقوام جو ترقّی یافتہ بھی ہیں اوربہ ظاہر مہذّب بھی،بہ طورِ خاص اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ اپنے انداز و اطوار سے خود کو انسانیت کا ہم دررد ظاہرکریں۔یہ الگ بات ہے کہ یہی ’’متمدّن دنیا‘‘بہت سے معاملات میںدُہرے معیار پر کاربند ہے۔بہرحال گفتگو ہے ’’جلیانوالہ باغ‘‘ کی کہ جس کے سانحے کو ایک صدی ہونے کو آئی ، مگر برطانوی سام راج کی تاریخ کے ماتھے پر یہ آج بھی ایک بدنما داغ کی صُورت موجود ہے۔ ویسے تو اس سانحے کے کئی کردار ہیں،جیسے برطانوی حکومت،ہندوستان کے شہری اور امرتسر ،پنجاب کے وہ بدقسمت مرد و زن اور بچّے، جو گولیوں سے چھلنی کر دئیے گئے۔ تاہم، اس کے دومرکزی کردار،پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر، مائیکل اوڈوائر،جس نے کارروائی کا حکم دیا اور دوسرا جنرل،ڈائر ہیں۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ کون ڈائر؟تواُسی برطانوی حکومت کا ایک کارپرداز ،کرنل ریجنالڈ ڈائر،جس نے حیوانیت کی انتہا کرتے ہوئے معصوم اور نہتّے شہریوں پر گولیوں کی بارش کی۔ وہ اُن دنوں برطانوی فوج کا سپہ سالار تھااور مذکورہ واقعے کے پیچھے ہیبت اور جبروت کے ساتھ در اصل اُس وقت کی برطانوی حکومت تھی، وہ حکومت جس کے اقتدار کا سورج ہندوستان میں ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کی آمدکے بعد سترہویں صدی میںتوڈوبتا دِکھائی نہ دیتا تھا۔

جلیانوالہ باغ سانحے کو سمجھنے کے لیے،اکیس وِیں صدی سے تاریخ میں سفر کرتے ہیں۔ہندوستان میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کویہ احساس ہو گیاتھا کہ ہندوستان گویا ایک سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے،لہٰذا اُس نے ہندوستان کی دولت بے دریغ استعمال کرنے کا منظّم منصوبہ بنایا۔ سترہویں صدی کے آغاز میں ہندوستانی بندرگاہ ،سورت میں قدم جمانے والی اس کمپنی نے رفتہ رفتہ پورے ہندوستان میں اپنے پنجے گاڑ دئیے۔برطانوی حکومت کو ہندوستان کی مختلف ریاستوں پر کبھی مغلوں، نوّابوں تو کبھی برائے نام بادشاہوں اور’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ جیسے اداروں کے ذریعے حکومت کرنے کے خُوب مواقع میّسر آتے رہے۔ جب مقامی افراد کو یہ احساس ہو چلا کہ غیر مقامی افراد یا فرنگی سرکارانہیں، ان ہی کی زمین سے مستقل طور پر بے دخل اور بے دَست و پا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، تو انہوں نےانگریزوں سے نجات کے لیے منظّم کوششیں بروئے کار لاناشروع کردیں۔ بے چینی بڑھنے لگی اور بڑھتے بڑھتے 1857 ء کی جنگ کی شکل اختیار کر بیٹھی۔ اسے غد ر کا نام دیا جائے یا جنگ کا، بہرحال یہ برطانوی استعمار کے خلاف بغاوت تو تھی ہی۔ہر چند کہ اسے پوری طرح کُچل دیا گیا ،مگر آزادی کی چنگاری نہ بُجھ سکی۔ اسی اثناء سر سیّد جیسے مصلحِ قوم نے دُرست طور پر قوم کی نبض پر ہاتھ رکھا اور تعلیم کو ہتھیار قرار دینے کی حکمت ِ عملی اپنائی۔تاہم ، انگریز کو اپنی سرزمین سے نکالنے کی تدبیریں سوچی جاتی رہیں اور اس معاملے میں ہندو،مسلمان اور سکھ سب ہی متّفق تھے، البتہ سب کی حکمتِ عملی اپنی اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق تھی۔سیاسی پیش رفت کے حوالے سے اگلے چند عشرے ہنگامہ خیز رہے، جیسے1885 ء میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں آیا،1906 ء میں مسلم لیگ نے جنم لیااور 1913 ء میں ’’غدرپارٹی‘‘ کا قیام بھی عمل میں آ چکا تھا ۔ ہندوستانی نوجوانوں کا وہ گروہ، جو برطانوی راج کو اپنی سرزمین سے ختم کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے کا عہد کیے بیٹھا تھا،مقامی لوگوں میں آزادی کی ایک شمع روشن کر چکا تھا ۔ مگرانگریز کو ’’غدر پارٹی‘‘ سے 1857ء کے غدر کی یاد آتی تھی،سو غدر پارٹی برطانوی استعمار کو بُری طرح کھٹکنے لگی۔

1914 ء میں پہلی عالم گیر جنگ کا آغاز ہوا۔ جرمنی اور برطانیہ اپنے اپنے ساتھی ممالک کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوئے۔ لگ بھگ چار برس جاری رہنے والی اس جنگ نے اقتصادی طور پر دنیا کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ہندوستان بھی جنگ کے اثرات سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکا۔1915 ءمیں محمّد علی جناح کی مسلسل کوششوں سے ہندو اور مسلمان بمبئی میں ایک مرکز پر یک جا ہوئے اور اگلے ہی برس یعنی 1916 ء میں تاریخی ’’میثاقِ لکھنؤ(غیر منقسم ہندوستان میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا کانگریس کے درمیان پہلا اور آخری سیاسی معاہدہ)‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ سروجنی نائیڈو نے محمد علی جناح کی کرشمہ ساز شخصیت اور کردار کو دیکھتے ہوئے اُنہیں’’ہندو مسلم اتّحاد کا سفیر‘‘ قرار دیا۔ 1917 ء میں مذکورہ صدی نے ایک اور بہت بڑا انقلاب دیکھا ،یہ روس کی سرزمین سے اٹھنے والا’’بالشویک انقلاب‘‘تھا۔ اس انقلاب نے لوگوں میںیہ اُمّید روشن کی کہ طبقاتی جنگ میں اب وہ مقام آچلا ہے کہ جہاں محروم اور کچلے ہوئے عوام کو قدرتی وسائل اور اُس کے ذریعے حاصل ہونے والے مواقع سے بہرہ مند ہونے کا موقع نصیب ہوگا۔ 1918ءمیںپہلی عالم گیر جنگ اختتام کو پہنچی۔تاہم، دنیا اب بھی بڑی تبدیلیوں کی زد میں تھی۔ اقتصادی کساد بازاری اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی،تو ہندوستان بھی اس سے کیسے بچ پاتا۔ اشیائے صرف کی قیمتیں اس حد تک بڑھ گئی تھیں کہ لوگوں کو روزمرّہ اُمور کی اشیاء بھی مہنگے داموں خریدنا پڑتیں۔ان مسائل پر آواز اٹھانے کے لیے جب مقامی رہنما سڑکوں پر آتے ، تو قید و بند کی صعوبتیں اُن کی راہ تکتیں، شورش تھی کہ بڑھتی چلی جارہی تھی۔برطانوی حکومت کو اندیشہ تھا کہ لوگوں کی بے چینی بڑھتے بڑھتے کسی بغاوت کی شکل نہ اختیار کرلے۔اُسے خاص طور پریہ دھڑکا تھا کہ بغاوت کے شعلے اگر کہیں بھڑک سکتے ہیں ، تو وہ پنجاب کی سرزمین ہے، کہ جہاں ’’غدر پارٹی‘‘ 1915 ء میں کئی مرتبہ احتجاجی جلسے کر چکی تھی۔ پھرانگریز سرکارکو لگتا تھاکہ ’’غدر پارٹی‘‘ جیسی سوچ رکھنے والے اور بھی بہت سے افراد کسی نہ کسی طرح عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکانے میں کہیںخفیہ، تو کہیں اعلانیہ طور پر مصروف ہیں۔

اب سال آیا 1919 ء کا، جس میںانگریزحکومت نے ’’رَولٹ ایکٹ‘‘کا نفاذ کیا۔ یہ قانون دراصل23 مارچ 1919 ءکو دہلی کی ’’امپریل لیجسلیٹو کاؤنسل‘‘سے قانون سازی کے ذریعے منظور ہونے والی وہ قرارداد تھی ،جس کے تحت حکومت کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ ہنگامی اقدامات کے طور پر کسی بھی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے غیر معینّہ مدّت تک حراست میں رکھنے کا جواز حاصل کر سکے گی۔نیز، یہ کہ اُسے اس سلسلے میں کسی عدالتی جواب دہی کا بھی سامنا نہیں کرنا ہو گا۔ یہ سب کچھ ’’ڈیفینس آف انڈیا ایکٹ مجریہ 1915ء ‘‘کے تحت تھا ،جس کی بنیاد پہلی عالم گیر جنگ تھی۔’’رَولٹ ایکٹ‘‘ دراصل برطانوی جج، سڈنی رولٹ کے نام پر بنایا گیا تھااور اُس کا اطلاق ہر اُس ’’برطانوی ہند‘‘ کے باشندے پر ہوتا تھا،جو سرزمینِ ہند پر آباد تھا۔ یہ قانون شخصی آزادی کو اس حد تک سلب کرتا تھا کہ حکومت محض کسی بھی شک کی بنیاد پر کسی کو بھی دو سال کی مدّت تک اپنی تحویل میں، اس شکل میں رکھ سکتی تھی کہ زیرِ حراست شخص کسی بھی عدالت سے رجوع نہیں کر سکتا تھا۔یہ محض شخصی آزادی ہی کو سلب کرنے کا قانون نہ تھا،بلکہ اس کے تحت نشر و اشاعت کے اِدارے بھی حکومت کے جبر و تشدّد کا کسی بھی وقت نشانہ بنائے جا سکتے تھے۔کانگریس کی طرف سے اس مطلق العنانی پر مبنی قانون کی سخت مخالفت کی گئی۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی کہ جس کا کام حکومت کو اس سلسلے میں عوامی غم و غصّے سے آگاہ کرنا تھا۔ کمیٹی کے ارکان میں جناح،موتی لال نہرو اور ولبھ بھائی پٹیل شامل تھے۔اجیت جاوید نے اپنی کتاب"Secular and Nationalist Jinnah" میں تحریر کیا ہے کہ ’’اُس وقت کے گورنر جنرل، ہندوستان، لارڈ چیمسفورڈنے سر سنکران نائر سے ایک سرکاری عشائیے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’مَیںنے رولٹ ایکٹ کی مخالفت میں جناح کے خیالات سُنے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس سے پیش تر کبھی جناح کو اتنے تلخ لب و لہجے میں بات کرتے نہیں سنا‘‘۔یہ قائداعظم محمد علی جناح ؒہی تھے، جنہوں نے ’’رَولٹ ایکٹ‘‘ کو ’’کالا قانون‘‘قرار دیااوراس کی منظوری کے بعد انہوں نے بہ طور احتجاج لیجسلیٹو کاؤنسل کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیاتھا۔گاندھی جی سمیت سیف الدّین کچلو، ڈاکٹر ستیہ پال اور دیگر رہنماؤں نے بھی اس کالے قانون کے خلاف سخت احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں سیف الدّین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔

سانحہ جلیانوالہ باغ کے ایک سو سال
یادگارِ جلیانوالہ باغ

پنجاب میں ’’بیساکھی میلہ‘‘ ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا تھا، سکھوں کا یہ مقدّس تہوار سولہویں صدی سے منایا جا رہا ہے ۔13 اپریل 1919ءکو یہ میلہ امرتسر کے ’’جلیانوالہ باغ‘‘ میںمنایا جانا تھا،اس وقت پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر، مائیکل اوڈوائر تھا۔ بیساکھی میلے میں شرکت کے لیے لوگ جُوق در جُوق وہاں پہنچنے لگے، جب تقریب شروع ہوئی تو مقرّرین نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔سیف الدّین کچلو،ڈاکٹر ستیہ پال اور دیگر رہنماؤں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیااور خُوب دل کی بھڑاس نکالی گئی۔وہ ایسا کرنے میں حق بجانب تھے کہ اپنی ہی سر زمین پر ایک طرح سے بے دخل کیے جا چکے تھے۔ اپنے ہی اناج اور غلّے پر حقِ تصرّف کھو چکے تھے اور نہ صرف یہ بلکہ حکومت کی انتقامی کارروائیوں نےاُن کی زندگی اجیرن کردی تھی۔حکومت نے جب دیکھا کہ حالات کوئی بھی رُخ اختیار کر سکتے ہیں، تو اُس نے ڈائر کو حکم دیا کہ جیسے بھی بَن پڑے ،مظاہرین سے نمٹا جائے۔

ڈائر پنجاب کے ضلعے،مَری کا پیدائشی تھا۔اُس کاباپ شراب کشید کرنے کا کام کرتاتھا۔ڈائر کی ابتدائی عُمر اور تعلیمی سفر مَری اور شملہ میں طے ہوا۔ مزاج کا تیز، بلند اور سخت لب و لہجے میں کلام کرنے والا ڈائر، احکام کی پابندی عبادت سمجھ کر کیا کرتاتھا۔جب اُسے حکم ملا کہ اس اجتماع پر قابو پانا ہے، تو وہ سمجھ گیا کہ اُسے اپنی دھاک بٹھانی ہے،سو وہ جلسہ گاہ میںموجود لوگوں کو دشمن سمجھتے ہوئے اُن پر ٹوٹ پڑا۔پندرہ ہزار نہتّے لوگوں پر ایک ہزار چھے سو پچاس گولیاں چلائی گئیں۔انتہائی محتاط اندازے کے مطابق چھے سے سات سو افراد جاں بحق ہوئے۔ آزاد ذرائع کے نزدیک یہ تعداد ایک ہزار کے قریب ہے، کچھ مورخ اور تجزیہ نگار تو اس تعداد کو بارہ سو تک قرار دیتے ہیں۔اُس احتجاجی و سیاسی اجتماع میں زیادہ تر سکھ افرادتھے۔جس جگہ پر اجتماع منعقد ہوا، وہ بہ مشکل پانچ سے چھے ایکڑ علاقے پر محیط تھی، داخلی دروازےپانچ تھے ، جن میں سے چار بند کر دئیے گئے۔ فائرنگ شروع کیے جانے سے پہلے کسی قسم کی تنبیہ بھی نہیں کی گئی، جس وقت وحشیانہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا، لوگ جان بچانے کے لیے کُھلے رہ جانے والے فقط ایک دروازے کی طرف اندھا دھند بھاگنے لگے۔ جان سے ہاتھ دھونے والوں میں بہت سے بدقسمت لوگ وہ تھے ،جو بھگدڑ میں زمین پر ایسے گرے کہ پھر اٹھنا نصیب نہ ہو سکا۔کچھ عینی شاہدین کے مطابق گولیوں کا رُخ اُسی واحد دروازے کی طرف تھا ، جہاں سےلوگ جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ یوں ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی گئی۔جلیانوالہ باغ کے سانحے کا ایک مرکزی کردار، ڈائر 1927 ء میں کئی عوارض جیسے بولنے کی صلاحیت کھونے، تنہائی پسندی وغیرہ کا شکار ہوگیا، بالآخر اس کی موت دماغ کی شریان پھٹنے سے ہوگئی۔دوسرا بڑا کردار اُس وقت پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر، مائیکل اوڈوائرتھا، جسے13 مارچ 1940 ء کو لندن میں ایک انقلابی سکھ،اُدھم سنگھ نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔اس اندوہ ناک سانحے کے بعد اس کی شدید ترین مذمّت میں بہت سی آوازیں بلند ہوئیں۔شاعرانہ حلقوں میں سے برطانوی حکومت کو سرِ عام للکارنے والی سب سے توانا آواز جوشؔ ملیح آبادی کی تھی۔ وہ آواز جس نے باطل سے دبنا اور ڈرنا شاید سیکھا ہی نہ تھا، جب بڑے بڑے اصحابِ علم و دانش برطانوی راج کی بربریت کے سامنے چُپ سادھے بیٹھے تھے،تو ایسے میں بے کسوں اور بے بسوں کی لاچارگی و بے چارگی کو اپنی آواز کی کڑک اور ہیبت عطا کرنے والی صدائے دلیرانہ جوش ؔ ملیح آبادی ہی کی ذات تھی۔ نہ اُس نے جرمنی کے ہٹلر کو چھوڑا اور نہ برطانیہ کے ڈائر کو۔ ایک نظر جوشؔ کی نظم ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے‘‘ کے چند اشعار پر ڈالتے ہیں، جس میں انہوں نے بے خوف اور بے جھجک ہٹلراور ڈائر کواُن ہی ناموں سے مخاطب کیا کہ جس کے وہ حق دار تھے ؎

کس زباں سے کہہ رہے ہو آج تم سوداگرو …؟دہر میں انسانیت کے نام کو اونچا کرو…جس کو سب کہتے ہیں ہٹلر ،بھیڑیا ہے بھیڑیا…بھیڑیے کو مار دو گولی پئے امن و بقا… باغِ انسانی میں چلتے ہی پہ ہے بادِ خزاں…آدمیت لے رہی ہے ہچکیوں پر ہچکیاں…ہاتھ ہے ہٹلر کا رخشِ خود سری کی باگ پر…تیغ کا پانی چھڑک دو جرمنی کی آگ پر…ذہن میں ہو گا یہ تازہ ہندیوں کا داغ بھی …؟یاد تو ہو گا تمہیں جلیان والا باغ بھی …؟پوچھ لو اس سے تمہارا نام کیوں تابندہ ہے…؟’’ڈائر‘‘ گرگِ دہن آلود اب بھی زندہ ہے…! وہ بھگت سنگھ اب بھی جس کے غم میں دل ناشاد ہے… اُس کی گردن میں جو ڈالا تھا وہ پھندا یاد ہے؟

حالات کی سنگینی اور بے رحمی ملاحظہ کیجیےکہ اُس وقت کے اعلیٰ دماغوں نے بھی ڈائر کی بربریت کو توثیق کی سند عطا کی۔ رڈیرڈ کپلنگ (1865-1936 ء)ایک نام ور انگریز شاعر، افسانہ نگار اور صحافی تھا۔ اُسے 1907 ء میں ادب کے نوبیل پرائز سے بھی نوازا گیا۔ اسی کِپلنگ نےڈائر کو ہندوستان کا محافظ قرار دیا۔ تاہم، اسی کے پہلو بہ پہلو اُس خون آشام واقعے کی مذمّت میں اٹھنے والی مغربی آوازیں بھی کم نہ تھیں۔ ونسٹن چرچل نے اس واقعے کو انسانیت کے لیے بدنما داغ سے تعبیر کیا، سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے جب ہندوستان کا دَورہ کیا ،تو جلیانوالہ باغ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ’’ یہ برطانوی تاریخ میں ایک سیاہ ترین واقعے کا حامل ہے۔‘‘ برطانوی تاریخ پر لگے اس سیاہ دھبّے کو مٹانے کے لیے موجودہ برطانوی حکومت اس حد تک سنجیدہ ہے کہ اس نے حال ہی میں حکومتِ ہند کے اشتراک سےایک نمایش ’’جلیانوالہ باغ 1919 ء ،محصور پنجاب‘‘ کا افتتاح بھی کروایاہے۔ـ نمائش یونی وَرسٹی آف مانچسٹر،برطانیہ اور ’’پارٹیشین میوزیم‘‘امرتسر،انڈیا کے باہمی اشتراک پر مبنی ہے۔یہ بات توطے ہے کہ برطانوی راج سے آزادی حاصل کرنے کے لیے پچھلی نسلوں کو آگ اورخون کے کتنے ہی سمندر وں سے گزرنا پڑا، یہ ہم تصوّر بھی نہیں کر سکتے ۔تاہم، یہ بھی طے ہے کہ بڑی طاقتیں آج بھی اپنے اندر ڈائرکا سا مزاج رکھتی ہیں، جس کے شواہد آئے دن دنیاکے سامنے آتے رہتے ہیں۔

تازہ ترین