• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی سیاسی صورتحال ہر لمحہ اورہر لحظہ بدل رہی ہے۔ تیزی سے بدلتی صورتحال کے حیرت کدے سے نئی نئی ”حیرتیں“ ظاہر ہو رہی ہیں۔ پرنٹ میڈیا کے لئے ہر لمحہ بدلتے سیاسی موسم کی رفتار کاساتھ دینا ممکن نہیں کیونکہ کالم چھپنے تک کچھ باتیں باسی ہوچکی ہوتی ہیں۔ اس طرح کی صورت میں الیکٹرانک میڈیا کو بالادستی حاصل ہوتی ہے جواس کا حق ہے اورمیرے خیال میں ہمارا برقی میڈیا وہ حق اچھی طرح ادا کر رہا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اگر میرے الفاظ ہر لحظہ بدلتی صورتحال کا ساتھ نہ دے سکیں اورقدرے باسی لگیں تواس کا الزام مجھے نہ دیں بلکہ ان کو دیں جنہوں نے زندگی کی رفتار ایک دم بہت تیز کردی ہے۔ ویسے سچ پوچھیں تومجھے یہ تیزرفتاری بہت اچھی لگتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ تیز رفتاری ”سٹیٹس کو“ جمود اورمنافقانہ سکون کوتوڑ کرتبدیلی کی لہر بن چکی ہے اگر یہ لہر مضبوط اورموثر بن جائے اور انتخابی عمل کا رخ صحیح سمت میں متعین کردے تو اس سے نہ صرف جمہوری نظام کو تقویت ملے گی بلکہ عوام کے بھی کچھ نہ کچھ مسائل حل ہونے کا امکان ہے۔ سادہ الفاظ میں اس بات کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ اگر لانگ مارچ قوم کو بیدار کردے اور ووٹروں میں یہ شعور پیدا کردے کہ انہیں مقامی اثر و رسوخ، دولت اورموروثیت سے بلند ہو کر سچے، باکردار اور اہل امیدواروں کو منتخب کرنا چاہئے تو یہ لانگ مارچ کا نہ صرف جمہوریت بلکہ قوم پراحسان ہوگا۔ اس وقت ووٹروں کو روایتی وفاداریوں، جذباتی نعروں اور ہر قسم کے خوف و لالچ کی زنجیروں سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ سیاسی اجاراداروں کو یہ بات ناپسند ہے اور انہیں سیاسی بیداری کی پھیلتی لہر میں خطرات کی بو آتی ہے۔ چنانچہ وہ اسے دبانے اور اس کا راستہ روکنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ تجربہ و مشاہدہ بتاتا ہے کہ اگر ایک بار تبدیلی کی آرزوکو لہر میں بدل دیا جائے تو پھر اس کا راستہ روکنامشکل ہو جاتا ہے۔ ہم اس کاتجربہ 1945-46 اور 1970-71 میں کر چکے ہیں۔ 1945 کی لہر نے پاکستان کا قیام ممکن بنا دیا اور 1970-71 کی لہر پی پی پی کوبرسراقتدار لے آئی جو تبدیلی کی علامت بن کر ابھری تھی۔ پی پی پی نے اس جذبے سے کہاں تک وفا کی یا 1971میں فوجی ایکشن اور مداخلت کے سبب ملک ٹوٹ گیا۔ ان موضوعات کا ا ٓج کے کالم سے تعلق نہیں۔ میں فقط اس آرزو کی بات کر رہا ہوں جسے سیاسی انداز سے لہر میں بدل دیا جاتا ہے اور میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ اگر ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنے نے عوام کے دلوں میں دھڑکتی تبدیلی کی آرزو کو مضبوط لہر میں بدل دیا، اسے تحریک کا روپ دیا تو یہ اس لانگ مارچ کا پاکستان کی سیاست پر احسان ہوگا لیکن اگر ان کے احتجاج نے سسٹم کو ڈی ریل کردیا یا انتخابات کو کھٹائی میں ڈال دیا تو اس سے ڈاکٹرصاحب کے امیج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور تحریک کے ہدف بھی دم توڑ جائیں گے۔ آج تک کی صورت یوں ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے پرامن لانگ مارچ کرکے ایک مثال قائم کردی ہے۔ میرے نزدیک یہ بھی ایک کرامت سے کم نہیں کہ ڈاکٹرصاحب تمام تر شدید اورمخالف پراپیگنڈے اور گھٹیا کردارکشی کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو گھروں سے نکال کر مسائل اور تکالیف کے باوجود اسلام آباد میں دنوں تک دھرنے دینے میں کامیاب ہو گئے۔ لوگوں کا والہانہ جذبہ شدید سردی اور وسائل و سہولیات کی کمی کو شکست دینے میں کامیاب ہوگیا اور ان لوگوں کے لئے غور وفکر کا سامان چھوڑگیا جو لانگ مارچ کا مسلسل تمسخر اڑانے میں مصروف تھے اور تعداد کے حوالے سے اس کی ناکامی کی پشین گوئیاں کررہے تھے۔ یہ بہرحال ایک بڑا لانگ مارچ اور بڑا دھرنا تھا جو امن اور نظم کے حوالے سے مثال بن گیا۔ میں نے پاکستان میں لاتعداد تحریکیں اور احتجاجی دھرنے دیکھے ہیں۔ اتنا جوش و جذبہ اور کمٹ منٹ کم کم دیکھی ہے اور ہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ میں نہ ڈاکٹر قادری کے ایجنڈے پرتبصرہ کر رہاہوں اور نہ ہی اس ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے طریقہ کار کا تجزیہ کر رہا ہوں۔ میری ذاتی رائے میں ان کے اکثر مطالبات اور پاکستانی سیاست کے تجزیئے بالکل درست ہیں لیکن میں اس بات کاحامی ہوں کہ تبدیلی آئینی و انتخابی ذریعے سے آئے تو پائیدار ہوگی۔ اس لئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے اور انہیں کسی صورت بھی ملتوی کرنا قومی مفاد میں نہیں۔ احتجاج کوکسی شکل میں بھی فوجی مداخلت کا جواز پیدا نہیں کرنا چاہئے ورنہ اسے سازش کا نام دیاجائے گا۔ میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم اور ڈاکٹر قادری کادھرنا محض حسن اتفاق تھا اورگرفتاری کا حکم ایک سال سے چلنے والے مقدمہ کا منطقی نتیجہ تھا لیکن ہمارے بعض دانشوروں نے سپریم کورٹ اور لانگ مارچ میں رشتے تلاش کرلئے۔ دوسری طرف مخالفین لانگ مارچ کے استقبال پر پیچ و تاب کھاتے رہے۔ حق تو یہ ہے کہ پنجاب اور وفاقی حکومتوں نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کیا، لانگ مارچ کو تحفظ دیا اور تصادم سے پرہیز کی حکمت عملی اختیار کی۔ پانی بہتا رہے تو نکل جاتا ہے لیکن اگر اس کا راستہ روکاجائے تو پھر اپنا راستہ بناتا اور نقصان پہنچاتا ہے۔
اب پاکستان کا سیاسی منظر نہایت حساس اور نازک صورت اختیار کرچکا ہے اور بحران سے نکلنے کیلئے احتیاط اور سیاسی بصیرت کا تقاضہ کرتا ہے۔ سیاسی افق پر ابھرنے والے خطرات پر ذرا نگاہ ڈالئے (۱) ہندوستان کا رویہ معاندانہ اور دھمکی آمیز ہوچکا ہے (۲) بلوچستان میں تو گورنرراج کے نفاذ کے بعد صوبائی اسمبلی نے نہ صرف اس اقدام کے خلاف قرارداد پاس کی ہے بلکہ پہاڑوں پر چلے جانے کی بھی دھمکی دے دی ہے۔ اسمبلی میں بااثر بلوچ لیڈران اورسردارموجود ہیں جو پہاڑوں پر جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مطلب سمجھتے ہیں آپ؟ یہ مطلب بغاوت ہے۔ دوسری طرف بلوچستان میں پہلے ہی لاقانونیت اور بغاوت کا دور دورہ ہے۔ احساس تحفظ مفقود اور حکومتی رٹ محدود ہوچکی ہے۔ کیا اس بگڑتی ہوئی صورت کو سویلین حکومت سنبھال سکے گی؟ مجھے اس حوالے سے اندیشے لاحق ہیں۔ (۳)کراچی میں قتل و غارت اور ٹارگٹ کلنگ معمول بن چکی ہے۔ صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے، لسانی فسادات اور مافیاز کے درمیان تصادم کا مسالہ تیار کیا جارہا ہے جو کسی وقت بھی آگ پکڑ سکتا ہے (۴) معاشی و مالی حالت خطرناک حد تک خراب ہوچکی ہے اور حکومت مالی بحران سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف سے بھیک مانگ رہی ہے لیکن ا ٓئی ایم ایف ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ کرپشن کی کہانیوں، لوٹ مار، حکومتی بے تحاشا اخراجات، بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ اور غربت و بیروزگاری نے عوام کو مایوسی کے دہانے پرپہنچادیا ہے۔
میرے نزدیک اس نازک سیاسی اوربحرانی کیفیت سے نکلنے کے لئے انتخابات کا انعقاد جلد از جلد ضروری ہے اور اس مقصد کیلئے قابل قبول نگران سیٹ اپ کا فوری قیام وقت کا تقاضہ ہے۔ پوچھاجائے گا کہ کیا انتخابات ان امراض کا علاج ہیں؟ سوال یہ ہے کہ اس کے علاو ہ کیا کوئی اورآپشن ہے؟ لوگ مایوسی کی گہرائیوں میں کھو چکے ہیں، لاقانونیت اور کرپشن راج کررہی ہے، دشمن قوتیں اندرونی اور بیرونی محاذوں پرسرگرم عمل ہیں اور حکومت ناکام ہوچکی ہے اس لئے عوام کو نئے حکمران اور نیا سیٹ اپ منتخب کرنے کاموقعہ دینا ہی نظام کے تسلسل کی ضمانت بن سکتا ہے۔ صرف بروقت اور مدبرانہ فیصلے ہی نظام کو بچا سکتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ فیصلوں میں تاخیر ہمیشہ تباہی کا باعث بنتی رہی۔ پاکستان کے آغاز کے دور میں آئین سازی میں تاخیر اور پھر انتخابات کا التوا ایوب خان کے مارشل لاکا باعث بنا، ایوب خان کے تاخیر سے کئے گئے فیصلے یحییٰ خان کی آمد کا باعث بنے اور بھٹو کے فیصلوں میں تاخیر نے ضیائی مارشل لا کی راہ ہموار کی وغیرہ وغیرہ… اورہاں اب بھی فیصلوں میں تاخیر افسوسناک انجام کی طرف لے جاسکتی ہے۔کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ حکومت آئین کے سیکشن 58 کے تحت اسمبلیاں منسوخ کرکے نگران سیٹ اپ بنائے اور انتخابات اپریل سے پہلے یا اپریل تک کروانے کا اعلان کردے۔ الیکشن کمیشن تمام سیاسی پارٹیوں سے تحریری وعدہ لے کہ وہ آئین میں رکھی گئی شرائط کے مطابق صرف صادق، امین، باکرداراور اہل امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیں گے۔حکومتی ہر کارے میری تجویز کو شکست کا نام دے کر داخل دفتر کردیں گے حالانکہ بظاہر نظر آنے والی شکست کبھی کبھی فتح ہوتی ہے۔
تازہ ترین