• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے حکمران اور سیاست دان جس معاملے کو بہت سہل سمجھ رہے تھے  وہ اب حلق کی ہڈی ثابت ہو رہا ہے۔ پانچ سال تک عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم انتقام کے شعلوں میں ڈھل کر حکمرانوں کے گریبان تک پہنچنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی مذہبی شخصیت کی زیرِ قیادت پچاس ہزار کے لگ بھگ انتہائی منظم اور عزیمت و استقامت کے پیکر مرد و زن اور نونہال ایک نئے عہد کی بانگِ درا ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ اگر مزید دو چار دن اسلام آباد کی مارگلا پہاڑیوں کے دامن میں ایک بڑے مقصد کے لیے موسم کی سختیاں جھیل جاتے اور پُرامن جدوجہد کی زندہ جاوید علامت بنے رہتے ہیں  تو پھر تبدیلی کے عمل کو شاید بڑی سے بڑی طاقت بھی نہ روک سکے گی کہ عوام کرپٹ اور استحصالی نظام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اُن کی محرومیوں  ناآسودگیوں اور اذیتوں کا سیلِ بلا خیز اُن کی گردن تک آ پہنچا ہے اور اُس کے اندر مراعات یافتہ طبقہ ڈوبنے والا ہے۔
وہ سیاسی کھیل جو گزشتہ چار پانچ برسوں سے انتہائی مکاری  خود غرضی اور سفاکی سے کھیلا جا رہا تھا  اُس کے ہولناک نتائج یکے بعد دیگرے سامنے آنے لگے ہیں۔ صدر آصف زرداری نے پارلیمانی اصولوں کے برعکس نواب اسلم رئیسانی کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ بنا دیا جن کو 65کے ایوان میں پیپلز پارٹی کے صرف چھ ارکان کی حمایت حاصل تھی۔ باقی ارکان کو ساتھ ملانے کے لیے ایجنسیوں کی مدد حاصل کی گئی۔ 65ارکان میں سے 60ارکان وزیر اور مشیر کے طور پر اقتدار کے مزے لوٹتے اور عوام کو محرومیوں اور پستیوں کی طرف دھکیلتے رہے ۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان زیادہ تر اسلام آباد اور دبئی میں قیام کرتے اور صوبے کے معاملات سے یکسر لاتعلق رہتے۔ اُن کے عہدِ حکومت میں لاپتہ افراد کا معاملہ ہزاروں تک جا پہنچا اور عدالت ِعظمیٰ کو بدامنی کا ازخود نوٹس لینا پڑا۔ اُنہی کے زمانے میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد چن چن کر قتل کیے گئے  مگر ایک قاتل بھی گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ اُن کی بے حسی اور سنگ دلی کا یہ عالم رہا کہ اُنہوں نے ہزارہ قبیلے کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے اُسے یہ پیغام بھیجا کہ میں آنسووٴں کو پونچھنے کے لیے ٹشو پیپرز کے ٹرک بجھوا سکتا ہوں۔ اِس پورے عرصے میں جناب صدر زرداری بڑی لاتعلقی سے وہاں سربریدہ لاشوں کے انبار دیکھتے رہے۔
عدالت ِعظمیٰ نے بلوچستان بدامنی کیس میں جب یہ فیصلہ سنایا کہ بلوچستان کی حکومت انسانی حقوق کے تحفظ میں یکسر ناکام ہو چکی ہے  تو وفاقی حکومت نے وزیر اعلیٰ رئیسانی کو سبکدوش کرنے کے بجائے اُسے اعتماد کا ووٹ دلوایا اور اِس ”کارِ خیر“ میں جنابِ صدر زرداری کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور نے کلیدی کردار ادا کیا۔پھر ایک شام علمدار روڈ پر ہزارہ قبیلے کے ایک سو لوگ شہید اور دو سو کے لگ بھگ زخمی کر دیے گئے  تو پورے ملک میں کہرام مچ گیا  مگر جناب وزیر اعلیٰ پاکستان سے باہر اپنے مشاغل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ہزارہ قبیلے کے مرد  عورتیں اور بچے سڑک پر نکل آئے اور وہ شدید سردی میں چار دن تک اپنے پیاروں کی میتوں کے ہمراہ شاہراہ پر بیٹھے رہے۔ اُن کے دھرنے سے پورے ملک میں ایک تحریک چل نکلی اور ایک ایسی فضا پیدا ہو گئی کہ جناب وزیر اعظم کو مذاکرات کے لیے رات کے دو بجے عورتوں اور جوانوں کے درمیان فرش پر بیٹھنا اور اُن کے مطالبات دباوٴ کے تحت تسلیم کرنا پڑے۔ یوں حکومت کا پُرامن دھرنے کے سامنے یہ پہلا سرنڈر تھا۔انہی دنوں ڈاکٹر قادری اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر چکے تھے۔ الطاف بھائی نے ڈھائی گھنٹے پر محیط ایک انتہائی دلآزار تقریر کر ڈالی اور دعویٰ کیا کہ قائد اعظم نے بھی 14/اگست 1947ء کو شہنشاہ معظم جارج ششم کی اطاعت کا حلف اُٹھایا تھا اور اگر ہم نے برطانوی شہریت حاصل کرتے ہوئے ملکہ معظمہ کی وفاداری کی قسم کھائی ہے  تو اِس پر اعتراض کیوں؟ اِس مضحکہ خیز بیان پر پورے ملک میں شدید برہمی کا اظہار ہو رہا ہے اور سوشل میڈیا میں اُن پر کڑی تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ قائد اعظم کے حلف کی تاریخی حقیقت یہ ہے کہ برطانوی حکومت نے انتقالِ اقتدار کی تمام دستاویزات ”ٹرانسفر آف پاور“ بارہ جلدوں میں شائع کی ہیں۔ اِس کی گیارہویں جلد میں قائداعظم کے حلف نامے کے بارے میں تفصیل کے ساتھ درج ہے کہ برطانوی حکومت نے بھارت اور پاکستان کے گورنر جنرل کے حلف نامے کی یکساں عبارت تجویز کی تھی۔ اِس میں قائداعظم نے اپنے قلم سے ترمیم کی اور حلف نامے کے بجائے یہ عبارت شامل کی : ”میں محمد علی جناح باضابطہ اقرار کرتا ہوں کہ میں پاکستان کے آئین کا جو کہ قانوناً نافذ ہے  سچا وفادار اور اطاعت گزار رہوں گا اور یہ کہ میں شہنشاہ معظم شاہ جارج ششم  اُس کے وارثوں اور جانشینوں کا بطور گورنر جنرل پاکستان وفادار رہوں گا“۔ جناب الطاف بھائی نے قائد اعظم کے حلف کو اپنی دہری شہریت کے جواز میں پیش کر کے اپنی شخصیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور وہ ڈاکٹر قادری کے لانگ مارچ کو تقویت پہنچانے کے لیے بار بار فیصلے بدل رہے ہیں۔
تمام جمہوری قوتوں کا اِس امر پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ تبدیلی آئین اور قانون کے مطابق آنی چاہیے ورنہ مسلکی قوت یا ریاستی طاقت کے زور پر جو بھی نقشہ ترتیب پائے گا وہ انارکی پھیلانے اور پاکستان کی بنیادیں کمزور کرنے کا باعث بنے گا۔ میرے خیال میں ہمارے سیاست دانوں کی طرح جناب ڈاکٹر قادری نے بھی بہت دیر کر دی ہے۔وہ اگر کینیڈا کی شہریت چھوڑ کر دو سال پہلے پاکستان آ جاتے تو انتخابی اصلاحات کا معاملہ گفت و شنید سے طے پا سکتا تھا۔ ہم کئی ماہ سے لکھ رہے تھے کہ بگڑتے ہوئے ملکی حالات اِس امر کا تقاضا کر رہے ہیں کہ انتخابات مارچ میں کرا لیے جائیں جب موسم بھی سازگار ہو گا اور آنے والی قومی اسمبلی کو بجٹ بنانے کا مناسب وقت بھی مل جائے گا  مگر ہمارے حکمرانوں کو اپنی مدتِ اقتدار میں ایک دن کی کمی بھی گورا نہیں۔ہم نے سیاسی زعماء سے یہ اپیل بھی کی تھی کہ وہ ایک متفقہ قومی ایجنڈے پر گرینڈ الائنس بنائیں اور عوام کو یقین دلائیں کہ وہ صرف اچھی شہرت اور اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے امیدوار ہی انتخابات میں کھڑا کریں گے  مگر وہ ایک دوسرے پر چاند ماری کرتے اور سیاسی عمل کو ضعف پہنچاتے رہے۔ اب جناب نواز شریف کی زیرِ قیادت دس اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں دس نکاتی پروگرام کا اعلان ہوا ہے  اِس میں آئین کی بالادستی اور بروقت اور شفاف انتخابات کو تحفظ دینے اور ہر غیر آئینی اقدام کی بھر پور مزاحمت کرنے کا عزم کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے حکومت سے انتخابات کی تاریخ اور نگران حکومت کے جلد قیام کا بھی مطالبہ کیا ہے  مگر اسلام آباد میں پُرامن دھرنے سے عوامی توقعات کو ایک نیا رُخ ملا ہے۔ اسلام آباد میں حکومت سرنگوں نظر آتی ہے۔ اِس وقت اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ آئینی تقاضوں کے ساتھ ساتھ تمام شہریوں کو عذاب بھری زندگی سے نجات دلانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں اور آنے والے انتخابات میں نوجوان قیادت کو آگے لانے کے لیے دولت مند طبقہ اپنی آسائشوں کی قربانی دینے کا عملی ثبوت دے۔
ڈاکٹر قادری بلاشبہ سیاسی طور پر تنہا رہ گئے ہیں  مگر وہ عام آدمی کے دلوں کے تار چھیڑ رہے ہیں۔ اب اُنہیں شعلہ بیانی بے پایاں وسائل کی نمائش اور مذہبی جذبات بھڑکانے کے بجائے عقلِ سلیم سے کام لینا اور آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اسلام آباد کے قیام کو خیر میں تبدیل کرنا ہو گا۔ اِس مقصد کے لیے حکومت کی طرف سے مذاکرات کی سنجیدہ دعوت دی جانی چاہیے جس کا مثبت جواب ملنے کی پوری توقع ہے۔
تازہ ترین