• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میری آنکھیں دیوانی ہو گئی ہیں۔ نہ جانے کیسے کیسے خواب دیکھتی رہتی ہیں۔ خوابوں کا بھی عجیب قصہ ہے۔ مجھے اپنی نو عمری کے وہ دن یاد ہیں جب شہر کا کتب فروش سڑک کے کنارے کتابیں پھیلا کر فروخت کیا کرتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ جاری تھی اور اُس وقت کتابیں لوگوں کی ذہنی کیفیت کے مطابق لکھی جاتی تھیں۔ میں وہ کتابیں خریدنے کے قابل تو نہیں تھا لیکن ان کا اتنا گہرا مشاہدہ ضرور کرتا تھا کہ ان کے سرورق اور نام مجھے یاد ہیں۔ الف لیلہ سے قصہ لیلیٰ مجنوں تک، دیوانِ چرکیں سے جادوئی ٹوٹکوں تک اور جنتری سے لے کر فالنامے اور تعبیر نامے تک بھانت بھانت کی کتابیں آراستہ ہوتی تھیں۔ ان کے اندر کیا لکھا ہوتا تھا اور کیسی کیسی عبارت آرائی ہوتی تھی، یہ تو یاد نہیں لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ جو کچھ لکھا ہوتا تھا وہ بہت ہی دلچسپ ہوتا تھا۔ ان کتابوں کی اشاعت کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہ تھا کہ ذرا دیر کو دل بہل جائے۔ خوابوں اور ان کی تعبیروں کا ذکر جنتریوں میں بھی ہوتا تھا اور آج تک ہوتا ہے۔ وہ خواب سچ پوچھئے تو ویسے ہی ہوتے تھے جیسے آج تک ہوتے ہیں۔ اِن دنوں خواب میں کبھی کبھی خون دیکھتا ہوں۔ ایک بزرگ سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ آپ جو کچھ سوتے میں دیکھتے ہیں، تعبیر اکثر اس کے بر عکس ہوتی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ وہ وقت آگیا جب میری جاگتی آنکھیں ہر طرف جیتی جاگتی زندگی دیکھیں گی۔ ایک اور خواب کثرت سے نظر آرہا ہے کہ میں کسی عمارت میں ہوں جہاں سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا ہے۔ کیا اس سے یہ سمجھوں کہ حبس کے ماحول سے باہر کھلی فضا میں نکلنے کے دن قریب آرہے ہیں۔ قریب کا ایک نقطہ گر جائے تو فریب بن جاتا ہے۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں کوئی طاقت یہ ایک نقطہ گرانے کے درپے نہ ہو۔ کوئی مجھے بتائے کہ خوشگوار خواب دیکھ کر خوش ہوا جائے یا تعبیر الٹی ہو جانے کے اندیشے سے ڈرا جائے۔اب میں اپنا خوشگوار خواب کہہ سناتا ہوں۔دیکھتا ہوں کہ ایک ایوانِ پارلیمان ہے۔ لق و دق ایوان اور تاحدِنظر نشستیں ہی نشستیں جن پر صاف ستھرے ، نہائے دھوئے لوگ نہایت سکون سے بیٹھے ہیں۔ سب کی پیشانیوں سے علم و دانش کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ ذہانت اورآگہی کی دولت سے مالا مال ہیں اور یہی دولت خرچ کرکے پارٹی کے ٹکٹ حاصل کئے تھے اور اسی دولت کے بل بوتے پر انتخابی مہم چلائی تھی اسی لئے رائے دہندگان نے جھولیاں بھر بھر کے ووٹ دیئے تھے۔ جس کے بعد لوگوں نے انہیں اپنے کاندھوں پر اٹھا کر اپنی عزیز مملکت کی چہیتی پارلیمان کی دہلیز پر اتار دیا۔
دیکھتا ہوں کہ پڑھے لکھے سرکردہ کسانوں کے رہنما پارلیمان کی نشستوں پر بیٹھے ہیں۔ پہاڑوں اور سنگلاخ علاقوں میں کانوں کی کھدائی کرنے والے جفاکشوں کے نمائندے بھی موجود ہیں۔ ذہین اور ہونہار وکیل اگلی نشستوں پر بیٹھے ہیں۔ نوجوان معالج اپنے مریضوں کے مفادات کی آواز اٹھانے کے لئے منتخب کر لئے گئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئر اپنے علم کی دولت سے سرشار اس ایوان کے قانون سازی کے عمل میں رہنمائی کا مشکل فرض نہایت خوبی سے ادا کر رہے ہیں۔ انہی نشستوں پر ریسرچ اسکالر اور وہ محقق بیٹھے ہیں جو عمر کا بڑا حصہ کتابوں کے درمیان گزار کر آئے ہیں اور کیسا ہی مسئلہ ہو، اس کی تہہ تک پہنچ جانے کے سارے گُر اچھی طرح جانتے ہیں۔
دیکھتا ہوں کہ بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے فارغ ہو نے والے نہایت اعلیٰ اساتذہ کو رائے دہندگان اس شان سے ایوان تک لائے ہیں کہ وہ چلتے ہوئے داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے نورِمجسم چلا آرہا ہو۔ پھر دیکھتا ہوں کہ دنیا میں نام پانے والے مصور اور مجسمہ ساز جو آرٹ گیلریوں میں نظر آیا کرتے تھے آج اقتدار کی گیلریوں میں چلے آئے ہیں اور انتخابات میں لوگوں نے انہیں اس بنا پر ووٹ دیئے ہیں کہ فنون کے قرب نے ان کے دل و دماغ میں دردمندی بھر دی ہے۔ خواب ہے کہ کہیں ٹھہرنے کا نام نہیں لیتا۔ اب کیا دیکھا کہ نہایت سلجھے ہوئے اور بات کہنے کے سلیقے سے خوب خوب واقف ادیب اور شاعر دنیا کے مشاہدے سے مالا مال ذہن لئے ایوان پارلیمان کے گراں قدر باب بنے ہوئے ہیں ۔ کچھ نوجوانوں کو دیکھ رہا ہوں جو کمسنی کے باوجود کمپیوٹر کو ایسی مہارت سے چلاتے ہیں کہ ان کی انگلیوں کے ایک اشارے سے دنیا کے سارے رموز آنکھوں کے سامنے نمودار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں کچھ ذہین لوگ دیکھ رہا ہوں جو ریاضی، علم کیمیا اور طبیعات میں کامیابی کے علم اٹھائے ہوئے ایک جلوس کی شکل میں اس ایوان میں داخل ہو رہے ہیں جن کی شخصیت سے علم یوں ٹپکا پڑتا ہے کہ نوجوان قانون ساز تعظیماً اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
پھر منظر بدلتا ہے اور دیکھتا ہوں کہ اسلامیات کے ماہرین کی ایک جماعت چلی آرہی ہے جنکے شانہ بشانہ مسیحی، ہندو، بودھ ،پارسی اور سکھ عقیدے کے سرکردہ افراد بھی چل رہے ہیں اور پورا ایوان تالیاں بجا کر ان کا استقبال کر رہا ہے۔ وہیں کچھ نشستوں پر گھریلو صنعتوں کے نمائندے ، دستکار، بسیں اور ٹرک چلانے والے، پولیس اور فوج کے اعلیٰ تجربہ کار اور ریٹائرڈ افراد قانون سازی کی موشگافیوں سے بخوبی آگاہ ایوان میں لائے جارہے ہیں۔ باقی نشستیں نامور اداکاروں، موسیقاروں، گلوکاروں، رقّاصوں ، فلم سازوں اور اسٹیج ڈرامے کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں کے لئے مخصوص ہیں اور خبر ہے کہ وہ پردہ گرتے ہی ایوان میں پہنچ جائیں گے۔ اسی لمحے بینکار، تاجر ، صنعت کار اور مالیات سے تعلق رکھنے والے افراد کسی کروفر کے بغیر عام لوگوں کی طرح چلتے ہوئے وہاں پہنچتے ہیں۔اسی دوران کچھ اضطراب سا نظر آتا ہے۔ لوگ کائی کی طرح چھٹ کر کسی کے لئے راستہ بنا رہے ہیں۔ ذہن کہتا ہے کہ کوئی بہت بڑا رہنما یا سربراہ آنے کو ہے کہ ایوان کے کھلے ہوئے دروازوں سے بیک وقت دھیمے سُر، روشنی اور خوشبو داخل ہوتی ہے اور نہایت مہذب، مودّب ، شگفتہ، شائستہ اور سلیقے اور قرینے کی تصویر بنی خواتین ایوان میں آرہی ہیں۔ ان کے چہروں سے عفّت اور پارسائی کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں اور صاف نظر آتا ہے کہ اپنی بات کہنے کیلئے جونہی لب کھولیں گی، علم کے سوتے پھوٹیں گے اور دانش کے پھول جھڑیں گے۔ اپنے خواب کی طوالت پر خود حیران ہو کر میں نئے آنے والوں کو ان کی نشستوں تک لانے والے رضا کاروں سے پوچھتا ہوں کہ کیا آمد کا یہ سلسلہ تمام ہوا؟ ایک شخص کہتا ہے، جی نہیں ، ابھی صحافیوں اورکالم نگاروں کا انتظار ہے اور خود آپ کی شیروانی کہاں ہے؟
میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ بیوی نے پوچھا،کیا ہوا؟ میں نے کہا، الله رحم کرے۔ اُس نے پوچھا، کس پر؟
میں نے کہا، پارلیمان پر۔
تازہ ترین