• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی کی خوب صورت سڑک، حال کی مصروف ترین تجارتی مرکز ’’زیب النساء اسٹریٹ‘‘

حبیب احمد

  1839میں سندھ پر قبضے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو یورپ تک رسائی کے لیے کراچی کی صورت میں ایک بندرگاہ میسر آگئی تھی، جسے مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے کراچی کو اپنا صدر مقام بنالیا ۔ بڑی تعداد میں ماہرین تعمیرات انگلستان اور انڈیا سے طلب کیے گئے، جنہوں نےکراچی میں عمارتوں کی تعمیر کے علاوہ ذرائع نقل و حمل کے لیے سڑکیں اور گلیاں تعمیر کیں۔ ان کے نام انگریز حکام اور معروف شخصیات سے موسوم کیے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد جب نئی مملکت میں ہر سطح پر نظریاتی تبدیلیاں کی جارہی تھیں، تو اس دوران انگریزوں اور ہندوؤں کے نام سے موسوم سڑکیں اور گلیاں، جن سے ہماری قومی شناخت متاثر ہورہی تھی، ان کی تبدیلی کا عمل بھی شروع کیا گیا۔ ان ہی میں ایک زیب النساء اسٹریٹ بھی ہےجو ماضی کی ایک خوب صورت سڑک، حال میں ایک مصروف ترین تجارتی مرکز بن گئی ہے۔یہ سڑک بھی تقریباً ڈیڑھ صدی قدیم ہے اور انگریز عہد حکومت میں تعمیر ہوئی تھی۔ یہاں زیادہ تر پارسیوں اور انگریزوں کی دکانیں تھیں۔ کراچی میںفوجی چھاؤنیاں قائم کرنے کے بعد برطانوی سرکار نے اسے ماؤنٹ ایلفنسٹن کے نام سے منسوب کردیا، جو افغانستان میں برطانیہ کے پہلے سفیر تھے اور بعد میں بمبئی کے گورنر کی حیثیت سے ان کی تعیناتی ہوئی تھی۔ انہیں یہ اعزاز 1820میں ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ مستحکم کرانے اور مہاراشٹر میں مرہٹوں کا قلع قمع کرنے کے صلے میں حاصل ہوا تھا۔لیکن بعض محققین کا کہنا ہے کہ اس اسٹریٹ کا نام ٹی جی ایلفسٹن نام کے اس وکیل سے منسوب کیا گیا ہے جس نے خالق دینا ہال انگریز وں کی عدالت میں پبلک پراسیکیوٹر کی حیثیت سے تحریک خلافت کے رہنماؤں مولانامحمد علی جوہراور ان کے بھائی کے خلاف بغاوت کے مقدمہ میں برٹش سرکار کی پیروی کی تھی۔اس سڑک کی خوب صورتی اور برطانوی طرز کی عمارتوں کی وجہ سے ماضی میں اسےکراچی کے پکاڈلی سرکس کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ پہلے اس کی حدود صدر کے علاقے میں جہانگیر پارک کے قریب سگنل سے شروع ہوکر پون کلومیٹر کے فاصلے پر سرور شہید روڈ کے چوراہے پر ختم ہوتی تھی لیکن اب اس کی طوالت ایم اے جناح روڈتک دو کلومیٹر پر محیط ہے۔ 1970سے قبل تک اس کا نام ایلفنسٹن اسٹریٹ رہا،جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں اس کا نام تبدیل کردیا گیا اور اسے ایک خاتون صحافی، زیب النسا ءکے نام سے منسوب کرکے ’’زیب النساء اسٹریٹ ‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا ۔ مذکورہ خاتون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ، انگریزی اخبارات کی پہلی کالم نگار اور معروف دانش ورتھیں۔ پاکستان بننے سے قبل وہ ہندوستان کے اخبارات میں کالم لکھتی رہیں، 1947 کے بعد پاکستان آگئیں اور یہاں بھی یہ سلسلہ جاری رکھا، اس کے ساتھ وہ ایک اخبار کی ایڈیٹر اور پبلشر بھی بن گئیں۔ ان کی شادی 1940میں محمد حمید اللہ سے ہوئی جو مذکورہ شاہراہ پر قائم جوتوں کی ایک مشہور دکان کی کمپنی میںاعلیٰ عہدے پر فائزتھے۔ اسی مناسبت سے اس شاہراہ کا نام ان کی اہلیہ کے نام پر رکھا گیا، لیکن بعض لوگ اسے مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی بیٹی کے نام سے منسوب کرنے کے لیےبضد ہیں۔ ان کے مطابق اس سڑک کا نام شہزادی زیب النساء کے نام پر زیب النساء اسٹریٹ رکھا گیا جو حسین خاتون ہونے کے علاوہ فارسی کی مشہور شاعرہ بھی تھیں اور ان کا مجموعہ کلام، ’’دیوان مخفی ‘‘کی صورت میں موجود ہے۔

اس دور میں اس سڑک پر میمن اور بوہری برادری کی چند دکانوں کے سوا زیادہ تر دکانیں انگریزوں اور پارسیوں کی تھیں جب کہ کچھ دکانوں پر ہندو قابض تھے۔ سب سے بڑی دکان ایک میمن تاجر حاجی غلام محمد ڈوسل کی تھی ،جہاں سوئی دھاگے سے لے کر اُس دور کی جدید بندوقوں اور دیگر اسلحہ سمیت ہر قسم کی اشیائے ضرورت دستیاب تھیں ،لیکن یہاں برطانوی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار بھی خریداری کے لیے آتے تھے ۔ ان کی ناراضگی سے بچنے کے لیے دکان میں داخلے کے لیے اصول و ضوابط بنائے گئے تھے۔ اندر جانے سے قبل فٹ پاتھ پر جوتے صاف کرائے جاتے، کوٹ یا قمیص کے بٹن بند کرائے جاتے،، داڑھی ،مونچھوں کو کنگھا پھیر کر درست کیا جاتا۔ یہ دکان اس زمانے میں لیزنگ کمپنی کا کردار بھی ادا کرتی تھی ۔ ماضی میں یہاں زیادہ تر کاسمیٹکس، ادویات کی دکانیں تھیں۔ہوور نامی انگریز درزی کی دکان بھی تھی ،اس کے علاوہ ایک پارسی فوٹوگرافرکی دکان اُس زمانے میں بہت مشہور تھی ۔ شام کے وقت اس دکان کے باہر فٹ پاتھ پر بنے ،چبوترے پر لوگ بید کی کرسیاں ڈال کر بیٹھ جاتے تھے اور سڑک کے حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ٹرانسپورٹ کی صورت میں اس پر ٹم ٹم، بگھی، یا گھوڑا گاڑی چلا کرتی تھی،جب کہ اکا دکا کاریں بھی نظر آتی تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد اس سڑک کی رونق میں بھی اضافہ ہوتا گیا، گاڑیوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ سڑک کے ساتھ اس کےفٹ پاتھ بھی پر ہجوم بڑھتا گیا ۔ انگریزوں، پارسیوں کی جگہ یہاں بڑی تعداد میں مقامی افراد کے کاروباری مراکز قائم ہوگئے ہیں۔ ۔ قیام پاکستان کے بعد اس سڑک کی رونق میں بھی اضافہ ہوتا گیا، گاڑیوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ سڑک کے ساتھ اس کےفٹ پاتھ بھی پر ہجوم ہوتے گئے۔ آج کل تو غیر قانونی پارکنگ اور فٹ پاتھوں پر مصوروں، پتھاروں اور چھاپڑی والوں کے ہجوم نے اس سڑک کے حسن کو ماند کردیا ہے۔

تازہ ترین