• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شبیر احمد ارمان

جوڑیا بازار پرانی کراچی کا تجارتی علاقہ ہے اور آج بھی قائم و دائم اور عروج پر ہے۔ تنگ گلیوں میں واقع گنجان مارکیٹوں میں دوڑتی پھرتی، چھوٹی چھوٹی ہتھ گاڑیاں جوڑیا بازار کی قدیم روایت ہیں ۔ دو پہیوں والے تختے اور لوہے کےہینڈل پر مشتمل ہتھ گاڑی چلانے والے محنت کش مجموعی طور پر یومیہ ٹنوں وزنی سامان کی نقل و حمل انتہائی خوش اسلوبی اور پھرتی سے انجام دیتے ہیں۔ جوڑیا بازار سے کم از کم چار ہزار سے زائد مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق بنوں اور باجوڑ سے ہے۔ اس کے بعد پنجاب اور کراچی کے قدیمی علاقہ لیاری کے محنت کشوں کا نمبر آتا ہے۔ یہاںکے محنت کشوں کی حالت قابل رحم ہے، صبح نو بجے سے رات نو بجے تک سخت دھوپ اور ٹھٹھرتی سردی میں مزدوری کرنے کے باوجود فی محنت کش روزانہ چار سو سے پانچ سو روپے کی دیہاڑی لگا لیتے ہیں۔

ناومل ہوت چند اپنی کتاب’’ Memoirs of Naomal Hatchan ‘‘میں لکھتے ہیں کہ’’ جوڑیا بازار تالپور دور میں کراچی کا مین بازار تھا۔اس دور میں اس علاقے کو بہت اہمیت حاصل تھی ،مگر انگریزوں نے اس علاقے کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے صدر بازار کو عروج دیا۔ 1843 میں تاج برطانیہ نے کراچی پر قبضہ کیا، چارلس نپیئر سندھ کا گورنر بنا، اس کے دور میں یہاں چند دکانیں تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شہر کا سب سے بڑا تجارتی مرکز بن گیا، اور (جوڑیا بازار) کے نام سے مشہور ہوا۔ ‘‘

تقریباً 173 برس قدیم اس تجارتی مرکز کا یہ نام کیوں پڑ ہے، کہا جاتا ہے کہ ابتدا میں کراچی کا واحد بازار ہونے کے سبب یہاں خریداروں کا رش ہوتا تھا اورلوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر چلتے تھے۔اسی مناسبت سے اس کا نام جوڑیا بازار مشہور ہوگیا۔ برطانوی دور میں کراچی شہر بندرگاہ سے شروع ہوکر کینٹ اسٹیشن اور سولجر بازار تک جا کر ختم ہوجاتا تھا۔ بیشتر آبادی لیاری اولڈ ایریا، کھارادر، میٹھادر، رنچھوڑ لائن اور اردگرد کے اطراف میں تھی۔ ابتدا میں دریا لال اسٹریٹ پر چند دکانیں تھیں، آبادی میں اضافےکے ساتھ ساتھ ضروریات زندگی کی اشیا ءکی طلب میں بھی اضافہ ہوتا گیا تو یہاں میں دکانوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ لوگ دوسرے علاقوں میں منتقل ہوتے گئے اور ان گلیوں میں آہستہ آہستہ مختلف اشیائے ضروریہ کی مارکیٹیں قائم ہوتی گئیں۔ آج جوڑیا بازار میں درجنوں ہول سیل کی مارکیٹیں قائم ہیں، جہاں روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ یہاں سے سامان نہ صرف اندرون شہر بلکہ سندھ، بلوچستان اور دیارِ غیر میں بھی بھیجا جاتا ہے۔

قیام پاکستان سے قبل اس بازار میں ہندو اور پارسی تاجر دکانداروں کی اکثریت تھی اور اس دور میں رکھے گئے ہندوانہ نام جنھیں بعد میں تبدیل کردیا گیا آج بھی زبان زد عام ہیں۔ جوڑیا بازار مجموعی طور پر 54 گلیوں پر مشتمل ہے۔ یہ بازار ضلع جنوبی کی حدود میں واقع ہے۔ سٹی کورٹ کے مغرب کی جانب سے شروع ہونے والی جوڑیا بازار کی مرکزی گلی دریا لال اسٹریٹ پر ایم اے جناح روڈ، لی مارکیٹ، جونا مارکیٹ، کجھور بازار، برتن بازار اور کھوڑی گارڈن سمیت مختلف گلیاں جن میں مختلف اجناس اور اشیاء کی مارکیٹیں، مختلف بینکوں کی 103 شاخیں قائم ہیں جو یومیہ کروڑوں روپے کا مالیاتی لین دین کرتی ہیں۔پاکستان کے کسی بھی ایک مخصوص علاقے میں موجود بینکوں کی شاخوں کے لین دین کے حوالے سے ایک ریکارڈ ہے، چونکہ یہاں سے شہر کی دیگر مارکیٹوں کو سامان کی سپلائی کیا جاتا ہے،اس لیے یہاں اشیا ءکی قیمتوں میں شہر کی دیگر مارکیٹوں کی نسبت واضح کمی نظر آتی ہے۔

جوڑیا بازار کی گلیوں میں مختلف کاروبا ر جیسے چاول، گندم، دالوں، چینی سمیت دیگر اجناس کا ہول سیل ، سری لنکا، بنکاک، سیلون اور سانچی سے پان درآمد کرکے اندرون سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخوا اور کشمیر سمیت ملک کے دیگر حصوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ ایک گلی میں صندوق کی بڑی مارکیٹ کے علاوہ اسٹیل کی شیٹس کا کاروبار بھی ہوتا ہے۔اس کے علاو ہ مختلف ہربل پروڈکٹس اور ادویہ ،شیمپو، کریموں اور دیگر کاسمیٹکس کے سامان ، سبزی، مختلف مسالہ جات ،اچار، چھالیہ، تمباکو اور پتنگ کی ہول سیل، ترپال ، ستلی ، بر تن ، کیمیکل ، گار مینٹس کی دکانیں ہیں۔ گڑ اور خشک میوہ جات ،خشک دودھ کا بھی خرید و فروخت کیا جاتاہے۔ یہاں ملک کا سب سے بڑا صرافہ بازار ہے، جہاں سونے کے یومیہ بھاؤ کھلتے ہیں۔۔ لوڈنگ ٹرانسپورٹ یعنی سامان لانے اور لے جانے کے لیے گاڑیاں ہر وقت موجود رہتی ہیں۔

تازہ ترین