• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات چیت: رؤف ظفر،لاہور

(عکّاسی: عرفان نجمی)

گلوبل انیشیٹیو فارایزما (Global Inititiative for Asthma) کے زیرِ اہتمام دُنیا بَھر میں ہر سال مئی کے پہلے منگل کو ’’عالمی یومِ دَمہ‘‘ منایا جاتا ہے۔ امسال یہ7مئی کو "Stop For Asthma"تھیم کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ دَمہ ایک قدیم مرض ہے، جو سانس کی نالیوں کو شدید متاثر کرتا ہے۔ دُنیا بَھر کے بیش تر مُمالک کی طرح پاکستان میں بھی دَمے کا عارضہ صحت کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ اس مرض کے پھیلاؤ کی وجوہ کیا ہیں، کیا یہ چھوت کا مرض ہے، اور وہ کون سی احتیاطی تدابیر ہیں،جنہیں اختیار کرکے مرض پر قابوپایا جا سکتاہے۔ عالمی یوِمِ دَمہ کے موقعے پر ہم نے ایسے ہی کئی سوالات کے جوابات جانے کے لیے معروف ماہرِ امراضِ سینہ اور پلمونولوجسٹ ،پروفیسر ڈاکٹر خالد وحید سے خصوصی بات چیت کی۔

ڈاکٹر خالد وحید نے 1987ءمیں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونی ورسٹی، لاہور سےطب کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایف سی پی ایس کیا۔ وہ صوبۂ پنجاب کے پہلے ایف سی پی ایس پلمونولوجسٹ ہیں۔نیز، چیسٹ سوسائٹی ،پنجاب کے صدر ہونے کے ساتھ انہیں اَن گنت فزیشنزکی تربیت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس وقت جنرل اسپتال، لاہور میں پروفیسر آف پلمونولوجسٹ اور سلیپ میڈیسن کے شعبے کے سربراہ کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ملاحظہ کیجیے۔

دَمہ اب جان لیوا مرض نہیں رہا
نمایندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے

س: ایک عام فرد کے سمجھنے کے لیے بتائیے کہ دَمہ درحقیقت ہے کیا، اور الرجی سے اس کا کیا تعلق ہے؟

ج: دَمہ سانس کی نالی میں سوزش کا عارضہ کہلاتا ہے، جس کی بنیادی وجہ الرجی ہے۔ اصل میں ہوتا یہ ہے کہ جب الرجی شدّت اختیار کر کے سانس کی نالیوں پر اثر انداز ہوتی ہے، تو یہ متوّرم ہوکر تنگ ہوجاتی ہیں اور یہ تکلیف اس قدر بڑھتی ہے کہ بالآخر مریض دَمے کا شکار ہو جاتا ہے۔ جہاں تک الرجی کی بات ہے، تو یہ بالعموم پیدایشی ہوتی ہے، جب کہ کئی افرادعام لوگوں کی نسبت زیادہ حسّاسیت کا شکار ہوتے ہیں۔ تاہم، جو افراد پیدایشی الرجی کا شکار ہوں، ان میں الرجی کے جینز پائے جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ عام افراد کی نسبت جلد دَمے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اسلام آباد میں بعض افراد کو پولن سے الرجی ہو جاتی ہے، جب کہ بعض ان کے ساتھ گھوم پھر رہے ہوتے ہیں، مگر انہیں کچھ نہیں ہوتا۔ اسی طرح کئی افراد کو مختلف قسم کی غذاؤںسے بھی الرجی ہوجاتی ہے۔ دیکھیں، اگر کسی فرد کے جسم میں الرجی کے جینز پہلے سے موجود ہوں، تو وہ آگے چل کر سانس کی نالیاں متاثر کرنا شروع کردیتے ہیںاور پھر یہی دَمے کا عارضہ لاحق ہونے کا سبب بن جاتے ہیں۔

س:دُنیا بھراور پاکستان میں مرض کی شرح کیا ہے؟

ج:یہ ایک عام مرض ہے،جس کی شرح دُنیا بَھر میں تقریباً یک ساں ہی ہے۔ یعنی11سے16فی صد ۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں مرض کی شرح بُلندہے، تو ایسا نہیں ہے۔ ترقّی یافتہ مُمالک مثلاً امریکا، یورپ میں بھی اس مرض کی شرح تقریباً اتنی ہی ہے، البتہ وہ مُمالک جہاں فضائی آلودگی زیادہ پائی جاتی ہو، وہاں یہ مرض بھی قدرے زیادہ پایا جائے گا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 20کروڑ عوام میں سے تقریباً 15فی صد یعنی 60سے70اکھ افراد دَمے کا شکار ہیں،جب کہ پوری دُنیا میں مجموعی طور پر 35سے 40کروڑ افراد اس مرض میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ماحولیاتی آلودگی کے اعتبار سے پاکستان کو دُنیا کا چوتھا بدترین مُلک قرار دیا گیا ہے، تو ظاہر سے بات ہے کہ آلودگی کے سبب جنم لینے والے امراض بھی زیادہ ہی ہوںگے۔

س:دَمہ لاحق ہونےکی وجوہ کیا ہیں اور کون سے ایسے عوامل ہیں، جومرض کی شدّت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں؟

ج:دَمے کی بنیادی وجہ تو وہ الرجن جینز ہیں، جو وراثت میں ملتے ہیں اور عُمر کے کسی بھی حصّے میں بگڑ کر دَمے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ تاہم، دیگر وجوہ میں سرِفہرست ماحولیاتی آلودگی ،اسموگ، گردوغبار، پولن، بال و پَر والے جانور، پرندے، لال بیگ، ہائوس ڈسٹ مائٹس،تمباکو نوشی ،بعض کھانے پینے کی اشیاءاور سرسبزو شاداب کھیتوں کی جگہ عمارتوں اور رہایشی کالونیوں کا قیام وغیرہ شامل ہیں۔ رہی بات مرض کی شدّت میں اضافے کی، تو موسمیاتی تبدیلیاں اور ماحولیاتی بگاڑدَمے کی شدّت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اگر مرض ابتدائی مرحلے میں بھی ہو، تو اس میں شدّت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض کیسز میں مرض کی شدّت گرمیوں یا پھر سردیوں میں بڑھ جاتی ہے۔ اور کچھ مریضوں میں سال بَھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دوسرے نمبر پرتمبا کو نوشی، گاڑیوں اور فیکٹریوں کا دھواں بھی مرض میں شدّت پیدا کر دیتا ہے کہ دھوئیں میں شامل مضر کیمیکلز سانس کے ذریعے جسم کے اندر داخل ہوکےسانس کی نالیوں اور پھیپھڑوں کو متاثر کرتےہیں۔ اسی طرح گھروں میں موجود پالتو پرندے اور جانور بھی مرض بڑھاتے ہیں۔جیسے مرغیاں، کتّے، طوطے وغیرہ ۔

س:مرض کی علامات کیسے ظاہر ہوتی ہیں؟

ج: الرجی کی وجہ سے جب سانس کی نالیاں متاثر ہوتی ہیں، توان کے مسلز سکڑنےلگتے ہیں اور رطوبت یا بلغم زیادہ بنتی ہے،جو سانس کی نالیوں کومزید تنگ کردیتی ہے،نتیجتاً سانس لیتےہوئے سیٹی کی سی آواز آتی ہے۔ سینے میں جکڑن محسوس ہوتی ہے اور بار بار کھانسی ہوتی ہے، جو لمبے عرصےتک رہتی ہے۔ ہر مریض میں یہ علامات مختلف بھی ہوسکتی ہیں۔ یاد رہے، کھانسی، نزلہ زکام اور سانس پھولنا وغیرہ غیر معمولی علامات نہیں۔ ہاں جب ایک ہی طرح کی علامات بار بار ظاہر ہوں اور عام علاج سے بھی افاقہ نہ ہو، تو مستند معالج سے رابطہ ضروری ہے۔

س:کیا دَمے کے مرض کا عُمر سے بھی کوئی تعلق ہے؟

ج: جی نہیں، اس مرض کا عُمر کے کسی خاص حصّے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ کسی بھی عُمر کے مَرد و خواتین، حتیٰ کہ بچّوں کو بھی لاحق ہوسکتا ہے

س: علاج کےضمن میں ادویہ زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں یا ان ہیلر؟

ج: دَورِجدید میں اس مرض کا بہترین علاج ’’اِن ہیلر‘‘ ہے، جس کے ذریعے دوا کی معمولی مقدار براہِ راست پھیپھڑوں تک پہنچ کر فوری ریلیف کا باعث بنتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب ادویہ پرانحصار بہت کم ہوگیا ہے،کیوں کہ ادویہ خون میں شامل ہو کر بہت تاخیر سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ان ہیلرکے حوالے سے کئی مفروضات عام ہیں۔ یاد رکھیے، اِن ہیلر کے ضمنی اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں، کیوں کہ اس میں موجود دوا کی مقدار ملی گرام کا بھی ہزارواں حصّہ ہوتی ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک بار اِن ہیلر کا استعمال شروع ہو، تو پھر تاعُمر کیا جائے۔ کئی مریض صحت یاب ہونے کے بعد معالج کے مشورے سے اس کا استعمال ترک کرچُکے ہیں۔ اس کے علاوہ نیبولائزر کا طریقۂ علاج بھی عام ہے۔ اس طریقۂ علاج کی بدولت مریض آسانی سے سانس لے سکتا ہے ،لیکن میرے نزدیک اس کا استعمال صرف ایمرجینسی کی صورت ہی میں کیا جائے، وقت بے وقت درست نہیں۔

س:اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی دَمے کا شکار ہوں، تو بچّوں میں مرض منتقل ہونے کے کس قدر امکانات پائے جاتے ہیں؟

ج: اگردونوں ہی اس عارضےمیں مبتلا ہیں، تو بچّے میں50فی صد اور اگر ایک مرض کا شکار ہے، تو 25فی صد امکانات پائے جاتے ہیں،کیوں کہ یہ مرض جینز کی شکل میں منتقل ہوتا ہے۔ اگرشادی کے بعد مرض کی تشخیص ہو، تو گھبرانےکی قطعاً ضرورت نہیں، کیوں کہ بہتر علاج اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ نارمل زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ پھر بھی اگر اس ضمن میں احتیاط برتی جائے ،تواچھی بات ہے، تاکہ آنے والے بچّے ہر طرح سے صحت مند زندگی گزاریں۔

س: اگر بچّہ دَمے کا شکار ہو یا کسی بچّے میں دَمے کی علامات ظاہر ہوں، تو والدین کیا کریں؟

ج: عام طور پر والدین کے لیے کم سِن بچّوں میں ادویہ مینیج کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچّوں میں مرض کی علامات ظاہر ہوں، تو عموماً والدین جنرل فزیشن سے رجوع کرتے ہیں، جو کئی کئی بار اینٹی بائیوٹکس کا کورس مکمل کروا تے ہیں،مگر افاقہ نہیں ہوتا،کیوں کہ اینٹی بائیوٹکس سانس کی نالیوں کی سوزش ختم نہیں کرتیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مرض کی علامات ظاہر ہوتے ہی ماہرِ امراضِ سینہ سے رابطہ کیا جائے۔ ہمارے پاس بعض بچّے اُس وقت آتے ہیں، جب وہ چھے چھے بار اینٹی بائیوٹکس کا کورس مکمل کر چُکے ہوتے ہیں۔

س: پولن الرجی سے کیا مُراد ہے؟

ج: دیکھیں، پودے اور درخت تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں ،لیکن بعض پودوں کا بُور (الرجن) فضا میں پھیل کرسانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوکر الرجی کا باعث بن جاتا ہے۔ ان میں شہتوت کے درخت اور جھاڑیاں سب سے اہم ہیں، جو اسلام آباد میں زیادہ تعداد میں پائی جاتی ہیں۔عام طور پرمارچ ،اپریل، مئی میں یہ بُور اُڑ کر فضا میں پھیل جاتا ہے اور انہی مہینوں میں یہ مرض بھی بڑھتا ہے۔ اور صرف اسلام آباد ہی نہیں ،بلکہ پنجاب اور شمالی علاقوں میں جہاں جہاں گندم کاشت ہوتی ہے، وہاں بھی فصلوں کا بور، کٹائی اور وڈائی کرنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔

س:کہا جاتا ہے کہ ’’دَمہ، دَم کے ساتھ جاتا ہے‘‘،تو اس میں کہاں تک صداقت ہے؟

ج: یہ بالکل غلط تصوّر ہے۔ایسا اُس وقت سمجھا جاتا تھا، جب جدید ادویہ دریافت نہیں ہوئی تھیں اورعلاج کے لیے اتائیوں سے رجوع کیا جاتا تھا۔اگرچہ اس رجحان میں کمی آئی ہے،لیکن اب بھی دیہات اور چھوٹے شہروں میں اتائیوں سے علاج کروایا جاتاہے۔دورِ جدید میں دَمہ ناقابلِ علاج یا جان لیوامرض ہرگز نہیں رہا،یہ اب قابلِ علاج مرض ہے اور اس پر مکمل طور پر قابو رکھا جاسکتا ہے، بشرطیکہ معالج کی ہدایت پر عمل کیا جائے۔نیز، علاج کے ساتھ احتیاطی تدابیر اور طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں بھی ضروری ہیں۔ اگرمرض پرقابو رہے ،توضروری نہیں کہ مریض تاعُمر ادویہ پر انحصار کرے، البتہ اُسےمحتاط زندگی بسر کرنا ہوگی۔تاہم، اس ضمن میں مریض اور اہلِ خانہ کی کاؤنسلنگ ضروری ہے، تاکہ ا دویہ کے علاوہ رہنما اصولوں سے بھی آگاہ کیاجاسکے۔ خود ڈاکٹرز کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ مریض کو کم سے کم دوا استعمال کروائی جائے۔ دیکھیں،عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ علاج کی بدولت مریض بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے، لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔اس وقت مریض اور ڈاکٹر کا کام اس کیفیت پر قابو پاناہوتاہے،لہٰذا مریض اگر خود کو مرض کے ساتھ ایڈجسٹ کر لے، تو وہ نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔

س: غذا سے متعلق بھی کئی مفروضات عام ہیں، تو اس بارے میں بھی کچھ بتائیں؟

ج: جی بالکل ایسا ہی ہے۔عام طور پرکیلے، چاول، دودھ وغیرہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دَمےکے مریضوںکے لیے مضر ہیں، حالاں کہ ان اشیاء کے استعمال کا مرض سے براہ ِراست کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا، البتہ بعض افراد کو کھانے پینے کی مخصوص اشیاء سے فوڈ الرجی ہوسکتی ہے۔مثلاً کچھ افراد کو جھینگےکھانے سےاسکن الرجی ہو جاتی ہے ،توبعض کو گندم سے۔ یہاں اس کی بھی وضاحت ضروری ہے کہ دَمہ چھوت کی بیماری ہرگز نہیں ۔مریض کے ساتھ کھانے پینے اور ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں،تاہم تھوڑی بہت احتیاط کرلی جائے۔

س:وہ کون سی احتیاطی تدابیر ہیں،جنہیں اختیارکرکے کنٹرول رکھنا ممکن ہے؟

ج: خوراک، ماحول اور عادات اس مرض کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،لہٰذا وہ غذائی اشیاء،جن سے الرجی ہو،ان کا استعمال ترک کردیں۔ عام طور پر معالج ٹھنڈی، ترش اور کھٹی چیزوں سے پرہیز بتاتے ہیں،تاکہ مریض کا گلا خراب اور سینے کا انفیکشن نہ ہو۔پھرمریض اپنے اطراف کے ماحول سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے خاص احتیاط برتے۔جیسا کہ کھیتوں اور کیمیکل فیکٹریوں میں کام کرنے والے اپنا پیشہ نہیں چھوڑ سکتے، لیکن منہ پر ماسک لگانے، دورانِ کام تھوڑا تھوڑا وقفہ لینے اور کچھ وقت کےلیے اس ماحول سے باہر رہنے جیسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ اگر کسی کو پرفیوم، مچھر کُش ادویہ یا میٹ وغیرہ سے الرجی ہے، تو ان کا استعمال نہ کیا جائے۔تمباکو نوشی نہ کی جائے۔ علاوہ ازیں،جس خاندان میں الرجی کی شکایات ہوں، وہاں کے مکین خاص احتیاط برتیں۔صفائی نصف ایمان ہے اور اسلام کا یہ سُنہرا اصول، دَمے کے مرض کے لیے بہت کارگر ثابت ہوتا ہے۔ پانچ وقت وضوکرنا ہمیں ناک، کان، گلے، منہ اور ہاتھ، پاؤں کی صفائی کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔

تازہ ترین