• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والوں کے ہاں بیانیوں کی اِس قدر فراوانی اور بہتات ہے کہ وہ ہر سال ایک نیا بیانیہ متعارف کرواتے ہیں مگر ریاست اِس قدر تنگدست اور مفلوک الحال ہے کہ سالہا سال کی تگ و تاز کے باوجود متبادل بیانیہ تشکیل دینے سے قاصر ہے۔ مثال کے طور پر پرویز مشرف کے دورِ حکومت سے اب تک پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں اور اُن کے ہمدردوں نے کئی بیانئے پیش کئے اور وہ یوں ہاتھوں ہاتھ خرید لئے گئے جیسے بس میں پھکی بیچنے والا چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کو قائل کر لیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک دور میں ڈرون حملوں کو دہشتگردی کے جواز کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ چونکہ امریکی ڈرون حملوں میں بے گناہ قبائلی مارے جاتے ہیں، اِس لئے انتقام اور بدلے کی آگ ملک کو جلا کر خاکستر کئے دیتی ہے۔ جماعت اسلامی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج میں پیش پیش ہوا کرتی تھی، تحریک انصاف نے پشاور میں دھرنا دیا اور نیٹو سپلائی بند کرنے کی کوشش کی۔ رفتہ رفتہ یہ بیانیہ داخلِ دفتر ہو گیا اور گزشتہ چند برس سے یہ عالم ہے کہ ڈرون حملوں پر دفتر خارجہ رسماً مذمت کرنے کا تکلف بھی گوارہ نہیں کرتا۔ پھر ایک نیا بیانیہ متعارف کروایا گیا کہ افغانستان میں امریکی مداخلت پاکستان میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کا باعث ہے، جب تک امریکی قابض فوج کابل سے نہیں چلی جاتی یہ سلسلہ نہیں تھمے گا۔ کسی دور میں یہ چورن بھی بیچا گیا کہ لال مسجد آپریشن کے دوران جن بچیوں کو مبینہ طور پر جلایا گیا اُن کے ورثاء (حالانکہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ یہ لاوارث بچیاں تھیں) نے ہتھیار اُٹھا لئے ہیں، اِس لئے دہشتگردی عروج پر ہے۔ پھر ایک دور میں معجون بلیک واٹر متعارف کروائی گئی جس نے فروخت کے سابقہ ریکارڈز توڑ دیئے اور بدقسمتی سے میں بھی اُس معجون کے خریداروں میں شامل ہوگیا۔ پورے وثوق کے ساتھ کہا جاتا کہ یہ جو دہشتگردی ہے، بلیک واٹر کے کمانڈوز کر رہے ہیں، کسی مسلمان کا اِس میں کوئی ہاتھ نہیں۔ ثبوت کے طور پر خیبر پختونخوا میں مارے گئے وہ دہشتگرد پیش کئے جاتے جن کی گردن اور پشت پر ٹیٹو بنے ہوئے تھے یا پھر جن کے ختنے نہیں ہوئے تھے۔ وہ تو بھلا ہو وزیرستان میں خدمات سرانجام دینے والے بریگیڈئر ابوبکر امین باجوہ کا جنہوں نے بتایا کہ وہاں بعض قبائل ختنے کا تردد نہیں کرتے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ غیر ملکی یا غیر مسلم ہیں۔ آج بھی جب کسی بم دھماکے کے بعد مذہبی رہنمائوں کی جانب سے مذمتی بیانات جاری ہوتے ہیں اور تان یہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب یا مسلک نہیں۔ کوئی مسلمان اِس قدر گھنائونی حرکت کا سوچ بھی نہیں سکتا، تو میرا ہاسا نکل جاتا ہے۔ اِن مذہبی رہنمائوں کی سادگی کے برعکس کڑوا سچ یہ ہے کہ دہشتگردوں کا مذہب بھی ہے اور مسلک بھی۔ بلکہ پوری بات کہی جائے تو طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ یہ دہشتگرد وہ لوگ ہیں جو نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ اپنے علاوہ کسی کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے۔

ہمارا قومی المیہ تو یہ ہے کہ جب امریکہ کی محبت میں گھائل تھے تو فوجی آپریشنز کے نام انگریزی نوعیت کے ہوا کرتے تھے جیسا کہ آپریشن جبرالٹر، آپریشن فیئرپلے، آپریشن وینس، آپریشن سرچ لائٹ، آپریشن مڈ نائٹ جیکالز۔ اب ہم عرب ممالک کے زیر اثر ہیں تو فوجی آپریشن بھی ضرب عضب، آپریشن رد الفساد جیسے ناموں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کیا خبر چند برس بعد فوجی آپریشنز کے نام چینی زبان سے مستعار لئے جائیں لیکن ہم اپنے اِن دوستوں سے یہ کیوں نہیں سیکھتے کہ ریاستیں کیسے اپنا بیانیہ تشکیل دیا دیتی ہیں؟ غیر ریاستی عناصر کو متوازی بیانیہ جاری کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ ہمارے ہاں جہاد کے نام پر فساد پھیلانے کے دو بڑے منبع ہے، دینی مدارس اور مساجد کے لائوڈ اسپیکر۔ افواج پاکستان کے محکمہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے چند روز قبل دینی مدارس کو محکمہ تعلیم کے زیرِ انتظام کرنے کی جو بات کی، وہ یقیناً قابل تحسین ہے مگر بہتر ہوتا کہ اِس فیصلے کا اعلان وزیرِ تعلیم کی طرف سے کیا جاتا۔

دہشتگردوں کے ہمدرد یہ کہتے رہے ہیں کہ منبر ومحراب سے ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں حالانکہ مدارس اور مساجد غیر ریاستی اور غیر ذمہ دار عناصر کے حوالے کرنا بندر کے ہاتھ استرا پکڑانے والی بات ہے اور اِسی غلطی کا خمیازہ ہم دہشتگردی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ آپ اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، روزِ اول سے مساجد ریاست کے زیرِ انتظام رہیں۔ خلفاء، گورنر اور دیگر حکومتی ذمہ داران ہی منبر سے ریاستی پالیسیاں اور ریاستی بیانیہ جاری کیا کرتے تھے۔ جب آبادی بڑھی، ریاستی ڈھانچے نے وسعت اختیار کی اور کاروبارِ حکومت کے باعث مساجد کا انتظام براہ راست چلانا ممکن نہ رہا تو حکومت کی طرف سے آئمہ کا تقرر کیا جاتا اور اُنہیں سرکاری خزانے سے وظیفہ دیا جاتا۔ جو بھی شخص خلافت کے منصب پر سرفراز ہوتا اُس کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا۔ آج بھی تمام عرب ممالک میں یہی نظام رائج ہے۔ تمام عرب ممالک میں موذن اور امام مسجد کا تقرر حکومت کرتی ہے اور وزارتِ مذہبی امور کی طرف سے منظوری کے بغیر کوئی خطبہ یا وعظ نہیں دیا جا سکتا مگر ہمارے ہاں کروڑوں مساجد اور لاکھوں مدارس میں مختلف مسالک کے علمبرداروں کو اپنی مرضی کے بیانئے کا پرچار کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ منبرِ رسولﷺ سے فتوے جاری کرنے اور نفرتیں پھیلانے پر کوئی قدغن نہیں، انتہا پسندی کا درس دینے پر کوئی پابندی نہیں تو اِسلام کی آڑ میں جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والوں پر تعجب کیسا؟ حاصلِ کلام یہ ہے کہ دہشگردوں کے بیانئے کو جھٹلانا ہے اور اسلام کا حقیقی بیانیہ سامنے لانا ہے تو فتویٰ بازوں سے مساجد اور مدارس واپس لینا ہونگے۔ جب تک ملکی دفاع اور مذہب کی تشریح وتعبیر کی نجکاری کا سلسلہ ترک نہیں کیا جاتا، ریاست متبادل بیانیہ متشکل نہیں کر پائے گی۔ بہتر ہو گا کہ زرخیز ذہنوں کی تخلیقی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اِس ضمن میں بھی کوئی اچھوتا بیانیہ تشکیل دیا جائے جو ہاتھوں ہاتھ بک جائے۔

تازہ ترین