• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسان قدرت کا سب سے خوبصورت شاہکار ہے اِس لئے اُسے اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے۔ دیگر تمام مخلوقات اِس کی تابع یا خدمتگار ہیں۔ روایتی مذہبی تعلیمات کے مطابق بھی فرشتوں یا قدسیوں کا تقدس سب پر واضح تھا مگر اُنہیں بھی یہ حکم صادر ہوا کہ آدمؑ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ، جنہوں نے سرنگوں ہوتے ہوئے سجدہ کیا وہ سرخرو ہوئے اور جس نے تکبریا کسی نظریے کے زیرِ اثر عظمتِ انسانی کے سامنے سرنگوں ہونے سے اجتناب یا انکار کیا وہ ہمیشہ کے لئے راندئہ درگاہ ہو گیا۔ سمجھنے والوں کے لئے اِس میں اشارہ یہ ہے کہ دنیا میں انسانیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ جو انسانوں سے محبت کرتا ہے وہی خدا کا محبوب ہے اور جو اُن سے اجنبیت و حقارت کا رویہ اختیا ر کرتا ہے وہ درحقیقت شیطان ہے۔ کسی کے اعلیٰ ترین فن پارے، تخلیق یا شاہکار سے الفت و اپنائیت درحقیقت تخلیق کارہی کی قدر افزائی ہوتی ہے۔ عظمتِ انسانی کا بنیادی سبب اُس کا شعور اور فکر ونظر کی جبلی مثبت آزاد روی ہے جبکہ فرشتے فطری طور پر نیکی پر کاربند ہیں۔ اگر کوئی فرد یا جتھہ کسی بھی سوچ یا عقیدے کے زیرِ اثر انسانی شعور پر قدغن لگاتا ہے یا شعوری فیصلہ کرنے کے حق آزادی کو دبوچتا ہے تو درحقیقت وہ انسانوں سے اُن کا مقامِ عظمت چھینتا ہے۔ ہمارے بہت بڑے عبقری مرزا غالب نے اپنے زمانے میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

آدمی، کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟

انسانیت صدیوں کا شعوری سفر طے کرتے ہوئے آج اِس مقام پر پہنچی ہے کہ تمام انسان بلاتمیز رنگ و نسل و جنس و عقیدہ برابر قابلِ قدرو احترام ہیں۔ اِسی وجہ سے آج کی دنیا میں انسانی حقوق، آزادیوں اور جمہوریت کا بول بالا ہوا ہے۔ دنیا بھر کی مہذب اقوام نے یہ اصول قبول کر لیا ہے کہ مرے ہوئے لوگوں کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ زندوں پر حکومت کریں۔ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں لہٰذا فیصلے بھی اُنہی کی مناسبت میں کئے جانا چاہئیں۔درویش کے ذہنی کینوس پر اِن حقائق کا شانِ نزول کم عمری کی شادیاں روکنے کے لئے لائے گئے بل پر ہونے والی بحث ہے حالانکہ یہ ایک معمولی سی بات ہے کہ پارلیمنٹ انسانی مفاد میں کوئی بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔ شادی کا تعلق رضا مندی اور بلوغت سے ہے۔ مان لیتے ہیں کہ بلوغت مختلف خطوں یا مختلف لوگوں میں مختلف اوقات میں ہو سکتی ہے لیکن جب ہم نے قومی سطح پر بلوغت کی عمر آفاقی اصول کی مطابقت میں اٹھارہ سال مقرر کر رکھی ہے تو لڑکے یا لڑکی کی شادی کا پیمانہ بھی اِسی کو کیوں نہ بنایا جائے۔

اگر کسی اور کلچر میں پہلے ہوتی تھی یا ہوتی ہے تو لازم نہیں کہ ہم بھی اُس کلچر کی نقل کریں۔ جب طبی طور پر یہ چیز ثابت ہے کہ کچی عمر کی شادیاں کئی جسمانی عوارض یا پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہیں تو پھر اِس پر اصرار کیوں کیا جائے؟ مسئلہ محض جسمانی بلوغت کا نہیں ہے، بالخصوص بچیوں کے معاملے میں ذہنی و شعوری بلوغت کی پختگی کا بھی ہے۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں جب مائیں بنتی ہیں تو یہ بڑی تکلیف دہ کیفیت ہوتی ہے۔ وہ بچیاں ابھی خود سنبھالے جانے کے قابل ہوتی ہیں چہ جائیکہ وہ آگے اپنی بچیوں یا بچوں کو سنبھال رہی ہوں۔ 18سال بھی کوئی بہت زیادہ عمر تو نہیں ہے کہ اس حد تک بھی صبر نہ کیا جائے۔

شادی ایک عقد یا کنٹریکٹ ہے اور معاہدہ دو بالغ فریقین میں ہی ہوتا ہے اور دونوں کی باہمی رضا مندی سے ہی قائم رہ سکتا ہے۔جہاں تک کسی غیرمنتخب شخص یا ادارے سے رہنمائی لینے کا سوال ہے تو منتخب پارلیمنٹ پر کسی بھی غیرمنتخب شخص یا ادارے کی اجارہ داری نہیں ہے اور نہ ہی ممبران پارلیمنٹ مخصوص آراء ماننے کے پابند ہیں۔ وہ شخصی تفہیم یا عوامی مفاد میں کسی بھی پڑھے لکھے یا قابل شخص سے رائے لیتے ہوئے اپنی تسلی کر سکتے ہیں مگر فیصلہ اُنہیں بہر صورت وسیع تر قومی مفاد میں کرنا ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہئے تھا کہ یہ مسئلہ پہلے اپنی پارٹی کے اجلاس میں طے کر کے آگے لاتی کیونکہ سینیٹ تو پہلے ہی اِس کی منظوری دے چکی ہے۔

خاتون وفاقی وزیر کا یہ موقف قابلِ فہم ہے کہ کئی قدیمی اسلامی ممالک جیسے ترکی اور مصر میں شادی کے لئے عمر کی اٹھارہ سالہ حد پہلے سے موجود ہے اور مصری مسلمانوں نے تو باقاعدہ الازھر یونیورسٹی کے ماہرین کی مشاورت سے یہ قانون تشکیل دے رکھا ہے جبکہ ترکی جو ایک جمہوری اسلامی ملک ہے، پارلیمنٹ نے عوامی مفاد میں یہ قانون سازی کر رکھی ہے۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ ہمارا مذہب کوئی جامد مذہب نہیں ہے، اس کا نظریہ اجتہاد بہت مضبوط اور وسیع تر ہے۔ اگر قوانین اور معاشرت کا علمی و فکری بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو ہم چودہ صدیوں میں ان گنت تغیرات سے گزرے ہیں۔ جمہوریت کے بالمقابل بادشاہتوں کی حمایت میں مذہبی دلائل بھی پیش کئے جاتے رہے ہیں۔ عورت کی حکمرانی کے خلاف تو ابھی کل تک دھواں دار تقاریر ہوتی رہیں لیکن وقت کے ساتھ مسلم سوادِ اعظم شعوری طور پر آگے بڑھتا رہا اور آج تمام تر اجتہادی فیصلے اِس قدر حاوی ہو چکے ہیں کہ روایتی لوگ بھی اُن کی مخالفت کا یارا نہیں رکھتے ہیں۔ روایتی اپروچ کے حاملین کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ جتنی زور آزمائی کم عمری کی شادی پر کر رہے ہیں، اُتنا زور جبری شادیوں کے خلاف لگائیں۔ جدید جمہوری اقوام میں تو بوجوہ شادی کا ادارہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے حالانکہ جبری شادی تو ایک نوع کا ریپ ہوتی ہے مگر افسوس یہاں پسند کی شادی پر اٹھنے والی غیرت قتل و غارت تک جاتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین