• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اور آخر کار میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ،ایک ہی اخبار کے ایک کالم نگار نے ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کو لاکھوں کے اجتماع کہا تو دوسرا نے پندرہ ہزار بیس ہزار لوگوں کا دھرنا قرار دیا ،کچھ چینلز نے تفصیل سے تا حدنظر سر ہی سر دکھائے اور کچھ چینلز نے ایک شاٹ اس جگہ لگایا جہاں ڈاکٹر طاہر القادری موجود تھے اور دوسرا اس جگہ کا جوڑ دیا جہاں لوگوں کا اختتام ہورہا تھا مگر بلیو ایریا جاننے والے عمارتوں کو پہچان کراندازہ لگاسکتے ہیں کہ درمیان میں کتنے لوگ ہو سکتے ہیں۔ بہرحال ڈاکٹر طاہر القادری میڈیا کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف مسلسل میڈیا مہم کاسبب وہ اربوں روپے بھی ہو سکتے ہیں جو وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے الیکشن مہم کیلئے میڈیا میں تقسیم کئے تھے اگرچہ یہ مکمل طور پر درست نہیں مگر جزوی طور پر اس کی صحت سے انکار کرنا بھی غلط ہے۔ بہرحال اب تو سپریم کورٹ نے میڈیا کے احتساب و آزادی کیلئے ایک کمیشن بنا دیا ہے۔ میرا خیال ہے اب صرف چور ہی اپنے انجام کو نہیں پہنچنے والے چوروں کی راہ ہموار کرنے والے اہل قلم بھی اس مرتبہ سزا سے نہیں بچ سکیں گے کیونکہ وہ بھی ان کے جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔
اس وقت اہلِ اقتدار ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور وزیراعظم پاکستان کی گرفتاری کے سپریم کورٹ کے احکامات کو ایک ہی اسکرپٹ کے دوسین قرار دے رہے ہیں،اگر یہ اسکرپٹ ہے تو پھر اس اسکرپٹ کا اگلا اور آخری سین تحریک انصاف سے وابستہ ہے۔ تحریک انصاف اگرچہ حکومت میں نہیں مگر موجودہ حکومتوں کی اصل اپوزیشن وہی ہے۔ یہ شریف، زرداری اگر واقعی جمہوریت کو مضبوط کرنے کیلئے آپس میں ہم آغوش ہیں تو پھر یہ قربانی کا وقت آگیا ہے پچھلے پانچ سال میں پہلی بار جمہوریت کو خطرہ محسوس ہورہا ہے اور اس کا سبب موجودہ حکومتی عہدیداروں کی کرپشن ہے۔ قربانی کچھ بڑی نہیں ہے ۔ مقررہ وقت سے دوچار ہفتے پہلے اقتدار چھوڑنے کی قربانی ہے،آئین کے مطابق الیکشن لڑنے کی قربانی ہے، بے داغ امیدوار سامنے لانے کی قربانی ہے، ٹیکس ادا کر دینے کی قربانی ہے، ذاتی مفادات کیلئے خرچ کیا جانے والا ملک کا سرمایہ واپس کر دینے کی قربانی ہے، ساتھ چلنے والے چوروں اور لٹیروں کو جیل بھیجنے کی قربانی ہے، جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے اگرخاندانِ نواز زرداری اتنا بھی نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ خاندانِ شرفائے زرجمہوریت کے ساتھ بھی قطعاً مخلص نہیں۔ ان کے سینوں میں صرف اپنے اقتدار کی خواہشوں کے الاؤ جل رہے ہیں۔
اگر یہ خاندان جمہوریت کیلئے قربانی نہیں دیتا اور اسی طرح ”حکومت “ کا ریپ جاری رہتا ہے تو پھرمجھ سمیت ہر پاکستانی فوج کی مدد سے بنائی جانے والی اس نگران حکومت کی حمایت کرے گاجس کا کام کم ازکم ایک سال صرف احتساب تک محدود رہے کیونکہ عوام نے لٹیروں سے گزشتہ 65سالوں کا حساب کتاب لینا ہے اور اس لئے اگر آئین میں گنجائش نہیں تو عدلیہ کے زیر نگرانی ریفرنڈم کراکے آئین میں تبدیلی بھی کی جاسکتی ہے۔ چلیں ایک سال نہ سہی نگران حکومت چھ ماہ کے بعد اُس آئین کے تحت الیکشن کرا دے جس کا ذکرِ خیر ڈاکٹر طاہر القادری کر رہے ہیں توکیا ہوگا عمران خان کی حکومت آجائے گی۔ وہ اسکرپٹ مکمل ہوجائے گا جو عوام لکھنا چاہ رہے ہیں جو آسمانوں پر لکھ دیا گیا ہے۔ بے شک تقدیریں نگاہِ مرد مومن سے بدل سکتی ہیں مگر اِس اسکرپٹ میں کوئی تبدیلی نگاہ ِ آصف شریف ممکن نہیں۔
ابھی تو صرف ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچا ہے، ابھی تو انقلاب کا پہلا پڑاؤ پڑا ہے، ابھی تو ایک لانگ مارچ اور بھی کروٹیں لے رہا ہے، ابھی تو عمران خان نے میانوالی سے نکل کر اسلام آبادآناہے، ابھی تو اس شخصیت نے آنا ہے جو پاکستان کا مستقبل ہے۔اہلِ اقتدار تو ابھی سے کانپ رہے ہیں اگر کسی لمحے عمران خان اسلام آباد کی طرف چل پڑا تو ڈی چوک پر پڑے ہوئے کنٹینر صدر ہاؤس کی عمارت کے پیچھے بری امام تک پہنچ جائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا ہے۔ اتنے لوگوں نے کبھی کہیں دھرنا نہیں دیا مصر میں حسنی مبارک کی حکومت ختم کرنے والے دھرنے میں بھی اتنے لوگ نہیں تھے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی نے بھی کئی دھرنے دیئے مگر اس دھرنے کی شان ہی نرالی ہے۔ اتنا منظم اتنا پُرامن دھرنا ڈاکٹر طاہر القادری کی طلسماتی شخصیت کے سوا ممکن ہی نہیں تھا اور اس طلسماتی شخصیت کی زبان سے پاکستانیوں نے آسمانِ اسلام آباد کی چھاتی پر لکھ دیا ہے کہ تاریکیٴ شریف و زردارکا وقت ختم ہونے والا ہے۔ اسلام آباد عمران خان کے انتظارمیں ہے، ممکن ہے اس کالم کی اشاعت سے پہلے وہ فراتِ وقت پر پہنچ چکے ہوں ۔ فرات ِ وقت سے محمد اشفاق چغتائی کا ایک شعر یاد آگیا ہے ۔جسے میں دھرنا دینے والوں سے منسوب کرتا ہوں
یونہی فراتِ وقت پر یہ رن پڑا ہوا نہیں
کسی کا باپ ہے علی،کسی کی ماں بتول ہے
اسی نعت میں وہ عظیم الشان شعر بھی موجود ہے جس کا دوسرا ہر پاکستانی کے دھڑکتے کی آواز بن کر گلی گلی گونجا
یہ جاہ اور جلال کیا ،یہ مال اور منال کیا
غلامیٴ رسول میں تو موت بھی قبول ہے
بے شک ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ غلامیٴ رسول میں موت کو قبول کرنے کا عمل ہے۔ لاکھوں لوگ جو ان کے کہنے پر شدید سردی میں گھروں سے نکل آئے ہیں انہیں ہر موڑ پر، ہر چوک پر ہوتے ہوئے دہشت گردی کے دھماکے سنائی اور دکھائی دے رہے تھے۔ انہیں رحمن ملک بھی نظر آرہا ہے جو انہیں روکنے کیلئے چیخ چیخ کر موت کا پیغام سنا رہا ہے مگر دھرنے میں لوگ بڑھتے جا رہے ہیں، اب بس عمران خان کے پہنچنے کی دیر ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اب بات دنوں کی نہیں گھنٹوں کی ہے۔ لوگوں کی نظریں دونوں بڑے اداروں کے چیفس کے چہروں پر جمی ہوئی ہیں اور کوئی لاکھوں آنکھوں سے نکلتی ہوئی التجا بھری نظروں کو کب تک اپنے چہرے پر برداشت کرسکتا ہے۔
تازہ ترین