• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز قوم کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کا دور اندیشانہ مشورہ دیتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کو جماعتی سیاست بالائے طاق رکھ کر مل جل کر کام کرنے کا پیغام دیا ہے جو ارباب سیاست ہی نہیں، پوری قوم کے لئے سوچ کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ انسانی سمگلنگ کے خاتمے کے لئے ایشیائی ممالک کی سیاسی جماعتوں کی تیسری بین الاقوامی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسائل سے نمٹنا ریاست یا کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لئے اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف متحد ہو جائیں تو کیا نہیں ہو سکتا؟ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی پارٹیاں متحد ہوکر ہی دہشت گردی جیسے مسائل سے نمٹ سکتی ہیں لیکن اس کے لئے سب کو الیکشن جیتنے اور حکمرانی کرنے کی سوچ سے آگے نکلنا ہوگا۔ قومی مسائل کے حل کے لئے بلاول بھٹو زرداری کا یہ مشوہ دوررس نتائج کا حامل ہو سکتا ہے بشرطیکہ اس پر اس کی روح کے مطابق سنجیدگی سے عمل کیا جائے۔ اس وقت ملک کو جن سنگین بحرانوں کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کے لئے قومی اتحاد و اتفاق کی اشد ضرورت ہے۔ سیاسی محاذ آرائی کی موجودہ فضا یہ مقصد حاصل کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ مشکل قومی مسائل سے نمٹنے کے لئے سیاسی پارٹیوں کا متحد ہو جانا ایک مثبت سوچ ہے جس پر ترقی یافتہ جمہوری ملکوں میں اجتماعی دانش کے فلسفے کے تحت عمل کیا جاتا ہے۔ ان ملکوں میں سیاسی پارٹیوں کا ہدف محض اقتدار برائے اقتدار نہیں ہوتا بلکہ ملک و قوم کوبہتر مستقبل دینا ہوتا ہے اس مقصد کے لئے جہاں وہ انفرادی سطح پر اپنا اپنا پروگرام رکھتی ہیں وہاں وقت کا تقاضا ہو تو اہم مسائل پر اکھٹی بھی ہو جاتی ہیں جیسا کہ جنگ عظیم دوم کے موقع پر برطانیہ کی دونوں بڑی پارٹیاں متحد ہو گئیں۔ اتفاق رائے کی حکومت قائم کر لی اور ایک عالم گیر جنگ میں اپنی قوم کو فتح دلادی۔ امریکہ اور دوسرے مستحکم جمہوری ملکوں میں بھی اسی سوچ پر عمل کیا جاتا ہے جیسا کہ عراق کی جنگ یا القاعدہ اور داعش کے خطرات کے معاملے میں کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اس وقت سلامتی سمیت کئی مسائل سے دوچار ہے۔ ان سے نمٹنے کے لئے قومی اتحاد اتفاق کی ضرورت پہلے سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ملک میں کئی سیاسی جماعتیں آزادی سے کام کر رہی ہیں جو جمہوریت کا بنیادی تقاضا ہے۔ قومی مسائل پر ہر پارٹی کا اپنا منشور اور اپنا ایجنڈا ہے اور رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے ہرپارٹی بلا روک ٹوک سرگرم عمل ہے اختلاف رائے کا یہ حق جمہوریت کی روح ہے لیکن بات جب وسیع ترقومی مفاد کی ہو تو تمام پارٹیوں میں باہمی اتحاد و اتفاق وقت کی اولین ضرورت بن جاتاہے اور ہماری سیاسی پارٹیوں نے کئی اہم مواقع پر بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے مثلاً دہشت گردی کے خلاف جنگ، قومی ایکشن پلان، فوجی عدالتوں کے قیام اور ایسے ہی بعض دوسرے معاملات میں انہوں نے متفقہ لائحہ عمل اختیار کیا۔ جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے تاہم اب بھی کئی تصفیہ طلب مسائل ایسے ہیں جن پر انفرادی سیاست کی بجائے قومی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے خاص طور پر دستوری اور معاشی معاملات پر اتفاق رائے کو یقینی بنایا جائے تو مردم شماری سمیت کئی دوسرے مسائل کا حل بھی نکل سکتا ہے۔ اس لحاظ سے بلاول زرداری جن کا تعلق نئی نسل سے ہے اور جن کے احساسات و جذبات بھی نئے ہیں، ایک لمبے عرصے تک سیاسی قیادت کر سکتے ہیں۔ ان کی باتوںپر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگرچہ انہوں نے ملک کی صرف تین بڑی پارٹیوں میں اتحاد و اتفاق کی بات کی ہے لیکن اس معاملے میں سبھی سیاسی پارٹیوں کا ایک صفحے پر ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ سیاست بے شک سب اپنی اپنی کریں ا ور اپنا موقف قوم کے سامنے پیش کریں کیونکہ یہ جمہوریت کا تقاضا بھی ہے لیکن اہم قومی مسئلوں پر سب مل جل کر چلیں۔














مسئلہ حقوق نسواں کا!!
تحفظ حقوق نسواں کے مسئلہ پر حکومت پنجاب اور علماء کرام کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ دفاع اسلام علماء کنونشن نے حقوق نسواں بل کو مسترد کر دیا ہے اور اسے غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بل کے حوالے سے عدالت سے رجوع کیا جائے گا۔ جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ حقوق نسواں قانون کو عوامی عدالت میں اڑا کر رکھ دیں گے۔ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل اپنی رائے کا پہلے ہی اظہار کر چکی ہے۔ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے اس بل کی مخالفت کی ہے اور اسے اسلامی روایات کے خلاف قرار دیا ہے۔ چند روز قبل وزیر اعلیٰ پنجاب نے مولانا فضل الرحمٰن سے رابطہ کر کے انہیں یقین دہانی کرائی کہ اگر اس بل میں کوئی سقم رہ گیا ہے ترمیم کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی ہے جو علماء کرام سے اس حوالے سے رابطے کرے گی ان کی جانب سے بل کے حوالے سے جو تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے گا۔ کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ اگر بل میں کوئی شق اسلام سے متصادم ہے تو اسے حذف کرنے کے لئے آئینی طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ بعض علماء کرام کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ جہاں تک عورتوں کے حقوق کا تعلق ہے تو اسلام نے معاشرہ میں عورت کو جو مقام مرتبہ اور عزت دی ہے کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔ شوہروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ بیویوں کو برابری کا حق دیں اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کریں۔ ماں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کے پیروں کے نیچے جنت ہے اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اسلام عورت کے حقوق کا مکمل تحفظ کرتا ہے تاہم بعض علاقوں میں انہیں بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں۔ ان معاشرتی برائیوں کے سدباب کے لئے قانون سازی اگر کی جائے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے!!

دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں !
ملک میں جاری ضرب عضب اور خیبر آپریشن نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور کراچی سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں جو کمی آئی ہے کہ وہ نظر بھی آ رہی ہے۔ کراچی میں روشنیاں بحال ہو رہی ہیں ایسے میں بھاگتے ہوئے دہشت گرد کارروائی کرنے کی ناکام کوششیں کر رہے ہیں جبکہ سکیورٹی کے تمام ادارے خصوصاً رینجرز اور فوج الرٹ ہیں اور ان کے خلاف کامیاب کارروائیاں جاری ہیں۔ گزشتہ روز پنجاب اور بلوچستان میں فورسز کی کارروائیوں میں 10دہشت گرد ہلاک کئے گئے ہیں جن کے قبضہ سے بارودی مواد اور بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا ہے جبکہ کراچی میں رینجرز کی دو چوکیوں پر دستی بم سے حملے کئے گئے جس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ رینجرز کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک عسکریت پسند گروہ شہر میں تشدد کو ہوا دے رہا ہے لیکن اس کے عزائم کامیاب نہیں ہونے دیں گے، جلد ملزموں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی میں فورسز کی کارروائی میں 5دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے کئی ٹھکانے تباہ کر دیئے جبکہ کوئٹہ، سوئی اور خاران سے 10مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ۔ ایف سی کے ترجمان کے مطابق دہشت گرد سکیورٹی فورسز پر حملوں گیس پائپ لائن تباہ کرنے اور اغواء سمیت کئی جرائم میں ملوث ہیں دوسری جانب پنجاب کے علاقے ننکانہ صاحب میں پولیس مقابلے میں 5دہشت گرد ہلاک کئے گئے جبکہ تین فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ دہشت گردوں کے خلاف فورسز کی کارروائیاں جاری ہیں اور ملک بھر میں سکیورٹی ادارے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کارروائیوں کے بڑے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں ۔ توقع ہے کہ ان کے نتیجے میں وہ دن دور نہیں جب کراچی سمیت پورے ملک میں امن و امان بحال ہو گا۔
SMS: #JEC (space) message & send to 8001

تازہ ترین