• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عظیم باکسر محمد علی کلے کو نئے ملینیم کے آغاز پر پچھلے ایک ہزار برس کا سب سے بڑا ’’کھلاڑی‘‘ (Sports Man) تسلیم کیا گیا ہے۔ گزشتہ ہزار سال کی تاریخ میں اس سے عظیم کھلاڑی اور غیرمعمولی باکسر پیدا نہیں ہوا۔ اس کی تکنیک‘ اس کا انداز‘ بے خوفی‘ پنچ کی طاقت‘ مکے کی رفتار‘ ذہن کی چستی‘ بدن کی پھرتی‘ دیکھنے والوں کو مسحور کر دینے والی شخصیت‘ حاضرین کو چونکا دینے والے‘ حریف کو نفسیاتی دبائو میں رکھنے کی صلاحیت غیرمعمولی حد تک حاضر اور بیدار رہتی تھیں۔ انہی خوبیوں کی وجہ سے ایک ہزار برس میں لاکھوں کھلاڑیوں کا سردار چنا گیا۔ محمد علی آج بھی زندہ ہے‘ دنیا بھر میں اس کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستانی نژاد برطانیہ کا شہری ’’عامر خان ‘‘بھی باکسنگ کاکھلاڑی ہے‘ ملک بھر میں اس کی خاصی جان پہچان ہے‘ بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کر کے بہت سے مقابلے جیت چکا ہے‘ کچھ میں ہار گیا۔ وہ ’’ورلڈ چیمپئین‘‘ نہیں لیکن آج کے میدانوں کا کھلاڑی ہے۔ تاریخ انسانی کا عظیم محمد علی کلے آج مارچ 2016ء میں عام سے ’’مڈل ویٹ‘‘ عامر خان کے مقابلے کیلئے رنگ میں اتر سکتا ہے؟ نہیں ‘اس لئے کہ اسے کھیل کے میدان سے دستبردار ہوئے نصف صدی ہونے کو ہے‘ اسے رعشہ کا مرض لاحق ہے‘ یادداشت متاثر ہوچکی ہے‘ بڑھاپے نے اس کی تاب و توانائی کو چاٹ لیا ہے‘ باکسنگ کے رنگ میں کیا اترے گا‘ وہ اس کی ایک سیڑھی نہیں پھلانگ سکتا‘ اس کے باوجود اس کی عظمت‘ شہرت‘ احترام میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
کرکٹ کی دنیا میںعمران خان کو آج بھی ’’افسانوی ‘‘بلکہ ’’اساطیری ‘‘حیثیت حاصل ہے‘ کرکٹ کے بارے میں اس کی رائے کو غور سے سنا جاتا ہے‘ وہ صائب الرائے ہے‘ اس کی شہرت اور مہارت کو بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ آج بھی اس سے ملنے یا دیکھنے کے تمنائی رہتے ہیں ‘ مگر کیا عمران خان آج نوجوان کھلاڑی ’’محمد عامر‘‘ کے مقابلے میں زیادہ اچھی اور تیز رفتار گیندیں کرا سکتا ہے؟ نہیں ‘ اس لئے کہ زمانہ گزر گیا وہ اپنے کھیلنے کی عمر کو دور کہیں بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے۔
سابق گورنر اور سینیٹر کمانڈر خلیل کے بقول ؎
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا
اب عطر بھی ملو تو پسینے کی بو ملے
اسی طرح الطاف حسین کراچی اور سندھ کے شہروں کی سیاست کے بے تاج بادشاہ رہے ہیں۔ پچھلے تیس برس انہوں نے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کئے رکھا۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقے کی وہ درگت بنائی کہ لجاجت بھری خوشامد سے انہیں چاند میں شبیہہ اور پتوں میں الطاف حسین کی تصویر نظر آنے لگی‘ وہ برسوں پکارتے رہے کہ ’’منزل نہیں رہنما چاہئے‘‘۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ’’جو قائد کا غدار ہے‘ وہ موت کا حق دار ہے‘‘ پھر کشتوں کے پشتے لگتے گئے ، ایک ایک خنجر اور آستین پر ہزار کا لہو تھا‘ تیس برس تک عروج کے زمانے دیکھے‘ آسمان کو چھوتی بلندیوں کا سفر جاری رہا‘ اب محمد علی کی طرح الطاف حسین کے ہاتھوں میں ’’رعشہ ‘‘اور خون میں ’’فشار‘‘ اتر آیا ہے‘ بلندیو ں کا سفر ڈھلان کی لڑکھڑاہٹ میں بدل چکا ہے‘ عنقریب لڑھکتے پتھر کی طرح ’’دھپ‘‘ سے زمین پر آ رہو گے۔ رعب ختم ہوا‘ دبدبہ جاتا رہا‘ شیر سی دھاڑ‘ اب چیخ و پکار میں بدل گئی ہے ؎
کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
مگر جوانی اٹھا کے لائے کون؟ خود میں چلنے کی سکت نہیں‘ دربان رخصت ہوئے‘ سندھ کے شہروں میں الطاف حسین کا کردار روز بروز سکڑتا جا رہا ہے۔ ناتوانی‘ توانائی میں بدل نہیں سکتی‘ عمر رفتہ لوٹ سکتی ہے نہ مقدمات کا سامنا کرنے پاکستان آ سکتے ہیں‘ نہ ہی دو دو سیڑھیاں پھلانگ کے سو فٹ(100) اونچے سٹیج پر چڑھ سکتے ہیں‘ نہ ان کی غراہٹ میں وہ گونج ہے کہ ’’شہروں کے شہر ‘‘سہم جائیں‘ نہ جئے سندھ کا نعرہ درپیش ہے کہ ’’اسٹیبلشمنٹ ‘‘پشت پناہ بنے‘ نہ غوث علی شاہ کی حکومت‘ نہ اس کے تلوے میں جماعت اسلامی کی چبھن ہے۔ باقی مشرف زدوں کی طرح اب الطاف حسین کی سانسیں بھی اکھڑنے لگی ہیں‘ 65 سالہ الطاف حسین مزید سفر جاری نہیں رکھ سکتے۔ ’’نوآموز‘‘ میڈیا کا خیال ہے کہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ نہ کسی سیاسی جماعت کو ختم کر سکتی ہے‘ نہ نئے مہرے تراش سکتی ہے۔ کیا اس کے چاک پر نئے گملے بننا بند ہو گئے ہیں‘ یا اس کی کوکھ سوکھ گئی ہے‘ یا وہ اپنا ہنر بھول گئے ہیں کہ وہ نیا ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف پید اکر سکے؟‘ یا اس کی وہ ’’کٹھالی‘‘ ٹوٹ گئی ہے جس میں جمالی‘ شجاعت حسین اور شوکت عزیز ڈھلا کرتے تھے؟ مصطفیٰ کمال اور قائم خانی کا کراچی سے دبئی جانا اعلان بغاوت تھا اور لوٹ کے آنا اعلان جنگ۔
2008ء کی مسلم لیگ(ق) اور 2013ء کی پیپلز پارٹی کی طرح متحدہ قومی موومنٹ بھی زوال کا شکار ہے‘ ہوا یہ کہ پنجاب‘ خیبرپی کے اور بلوچستان میں مسلم لیگ(ق) کو مسلم لیگ(ن) نے زیر کیا‘ اگلے الیکشن میں تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کا صفایا کر دیا۔ قوم کی بدقسمتی یا سندھ کی دونوں بڑی جماعتوں کی خوش قسمتی سے ’’متبادل‘‘ نے ادھر توجہ نہ کی اور ان کی ’’رسی‘‘ دراز ہوتی چلی گئی۔ اب سندھ کی شہری او دیہی سیاست میں متبادل پیدا ہو چکے ہیں‘ گزشتہ انتخاب میں ہر علاقے اور ہر انتخابی حلقے میں تحریک انصاف متبادل بن کر سامنے آئی مگر سندھ پر اس کی توجہ نہ ہونے کے برابر تھی‘ مصطفیٰ کمال اور اس کے ساتھی کراچی میں ایم کیو ایم کے لئے بڑا خطرہ بن کر ظاہر ہوئے ہیں‘ اچھی تنظیم‘ تربیت یافتہ فسادی‘ فاشسٹ سیاست ان کی طاقت کے تین ستون ہیں‘ فوج کی قیادت میں رینجرز نے ان کی فساد زدہ سیاست کی طاقت کو اکھاڑ پھینکا ہے۔ بروقت ایک آزمودہ کار لیڈر مصطفیٰ کمال کی شکل میں میدان میں اتر آیا‘ وہ کراچی والوں کی جان پہچان کا آدمی ہے‘ آزمودہ اور ثابت قدم‘ اس نے اپنی قوت عمل‘ اخلاص اور دیانت داری کو ثابت کیا ہے۔ اس کی آواز میں وہی گھن گرج ہے‘ کراچی والے جس کے عادی ہو چکے ہیں‘ اس کی آنکھیں روشن اور لہجہ پراعتماد ہے۔ قابل ذکر تعداد میں عوام اور مقامی لیڈر حتیٰ کہ ایم پی اے اپنی سیٹوں سے استعفیٰ دے کر نئی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں‘ نبیل گبول اور ذوالفقار مرزا بھی ان کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں‘ ایسی صورت میں پیر پگاڑا کی مسلم لیگ اور تحریک انصاف کا مقامی اتحاد دیہی اور شہری سندھ کی سیاست بدل ڈالے گا‘ ممتاز بھٹو‘ ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی فاطمہ بھٹو بھی خوف کے حصار سے نکل کر میدان میں آئے گی۔ 2018ء کے الیکشن میں سب کچھ نیا ہوگا‘ بدلا بدلا اور ہمیشہ سے کافی بہتر۔
مصطفیٰ کمال اور اس کے ساتھیوں کی پہلی پریس کانفرنس کے بعد‘ الطاف حسین کے بیانات اور ایم کیو ایم کے آٹھ احتجاجی جلوس اس بات کا اظہار ہے کہ متحدہ کی قیادت نے نوجوان باغیوں کی سیاسی حیثیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ وہ اس سے خوفزد بھی ہیں۔ ایم کیو ایم کے ان جلوسوں میں روایتی جوش و خروش او ربے ساختگی ناپید تھی‘لیکن ممبران صوبائی اسمبلی کے چھوڑ جانے اور متعدد تنظیمی عہدیداروں کے غائب ہو جانے کے بعد پارٹی کے اندر ’’وفاداری‘‘ کا بحران پیدا ہو چکا ہے۔ سب لٹیروں سمیت وفاداریاں مشکوک ہو گئی ہیں‘ پرانی تنظیم چل نہیں سکتی‘ نئی بنانے میں دراڑیں پھیل جانے کا خطرہ ہے‘ مصطفیٰ کمال کے خلاف احتجاجی جلوسوں میں شرکاء کی تعداد‘ پژمردہ چہرے‘ کھوکھلے نعرے مستقبل کے امکانات کا پتہ دیتے ہیں ؎
جو تھا نہیں ہے جو ہے نہ ہو گا‘ یہی ہے اک حرفِ محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی‘ اسی کا مشتاق ہے زمانہ
(اقبال)
تازہ ترین