• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیرس عجیب وغریب تحریکوں کا شہر ہے، یہاں فلسفہ اور آرٹ سے لے کر سرمایہ کاری کی تحریک جنم لیتی رہتی ہیں۔ ‎مجھے یہ سُن کر بڑی حیرت ہوئی کہ فرانس کے کچھ پاکستانی کاروباری شخصیات نے ’’اوورسیز پاکستانیز انوسٹمنٹ موومنٹ‘‘ کا آغاز کیا ہے۔ اِس تحریک کے روحِ رواں اعظم چوہدری ہیں جو پیرس کے ایک بڑے بزنس مین ہیں، جنہوں نے اُس موومنٹ کی تقریبات میں شرکت کیلئے مجھے یورپ بلایا۔ ایتھنز، اوسلو، برلن، فرینکفرٹ اور پیرس میں سرمایہ کاری کے موضوع پر ہونے والی یہ کاروباری کانفرنسیں میرے لئے ایک دلچسپ تجربہ تھیں، پاکستانی بزنس مینوں کا یہ گروپ نہ صرف یورپ بھر کے پاکستانیوں کو پاکستان میں انوسٹمنٹ پر مائل کر رہے ہیں بلکہ اُن کی انوسٹمنٹ کی ذمہ داری بھی لے رہے ہیں۔ اِس گروپ نے پہلی سرمایہ کاری خود کی ہے تقریباً دس ارب روپے سے اسلام آباد میں رہائشی اور کاروباری پروجیکٹ کا آغاز کیا ہے۔ اپنے اِس پروجیکٹ کے متعلق اعظم چوہدری نے کہا ’’منصور بھائی یہ ایک چھوٹا سا نیا پاکستان ہوگا۔ یہ ہم پاکستانیوں کے خوابوں کی پہلی بلڈنگ ہوگی۔ اِن شاءاللہ رفتہ رفتہ پورے پاکستان کو ایسی دلفریب اور دیدہ زیب عمارتوں سے جنت نظیر بنائیں گے‘‘۔

اپنے ملک کی تقریبات بھی بے شک بڑی شاندار تھیں مگر نتائج کے حوالے سے پیرس میں ہونے والی انوسٹمنٹ کانفرنس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ ہر حوالے سے ایک یادگار تقریب تھی۔ پیرس میں شاذ ملک نے میرے اعزاز میں ایک مشاعرہ کا بھی اہتمام کیا تھا، پیرس کے شعرائے کرام کو سن کر اچھا لگا، شاذ ملک سے کافی دیر تک مشیر اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان کے متعلق گفتگو ہوتی رہی، شاذ ملک بھی سیالکوٹ کی اُسی فیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔ سیالکوٹ کے ادب نواز ڈپٹی کمشنر بلال حیدر کا ذکر ہوا، جنہوں نے سیالکوٹ کے ادیبوں اور شاعروں کیلئے سیالکوٹ ٹی ہائوس بنایا ہے۔ لاہورکے پاک ٹی ہائوس کی روایت کو سیالکوٹ میں پہنچا دیا۔ سیالکوٹ ٹی ہائوس کی افتتاحی تقریب میں ہارون الرشید، فرحت عباس شاہ، ڈاکٹر صغرا صدف اور میں شریک ہوئے۔

اوسلو کے شعرائے کرام نے بھی محبت کی، وہاں مشاعرہ ایک طرح سے منصور آفاق کے ساتھ شام میں بدل گیا، لوگوں نے بڑی خوبصورت باتیں کیں، جرمنی میں اقبال حیدر سے بھی ملاقات بھی ہوئی۔ اوورسیز الائنس کے صدر افتخار احمد کے ساتھ سوئٹز لینڈ کا سفر بھی انتہائی خوشگوار اور فرحت بخش رہا۔ امتیاز احمد سندھو بھی بھولنے والی شخصیت نہیں تھے، اُنہوں نے جرمنی میں اسپتال نما ریستوران کھولے ہیں جہاں لوگوں کا علاج مسالا جات سے کیا جاتا ہے۔ وہ بھی پاکستان میں اِس حوالے سے خاصی بڑی انوسٹمنٹ کا سوچ رہے ہیں۔ اوسلو کے چوہدری اظہر اور شیخ فواد پاکستان میں الیکٹرک کاروں کو رواج دینا چاہتے ہیں، ناروے میں تقریباً ہر تیسری گاڑی الیکٹرک ہے، اُس میں ٹنکی موجود نہیں اور نہ انجن ہے، وہ گاڑیاں بجلی سے چارج ہونے والی بیٹریوں سے چلتی ہیں، ایک بار چارج ہونے پر ایک کار پانچ سو کلو میٹر چلتی ہے۔ بالکل آواز پیدا نہیں کرتیں، دھویں کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ موٹرویز کی ہر سروس پر گاڑیوں کو بجلی سے چارج کرنے والے پول لگا دئیے گئے ہیں۔ ایک کار کو مکمل طور پر چارج ہونے کے لئے ایک گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔ ناروے کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ دو ہزار پچیس کے بعد ناروے میں کوئی گاڑی پٹرول سے نہیں چلے گی۔

یورپ کی اِس دس روزہ سیاحت میں جہاں میرا دل لگا وہ علامہ اقبال کی ایما کا شہر تھا۔ دریائے نیکر کا کنارے تھا، جس کی خاموشی پر اقبال کے دل نے بھی بے ساختہ کہا تھا ’’قدرت ہے مراقبہ میں گویا‘‘میں نیکر کے ساحلوں پر دیر تک پھرتا رہا۔ فضا میں اقبال کی سانسیں محسوس کرتا رہا۔ ہوا میں اُس کے لمس کا احساس موجود تھا، ایک نظم کے چند مصرعے یونہی چلتے ہوئے زبان پر آگئے تھے

دریائے نیکر کے کنارے

نقش پائے حضرت اقبال پر چلتا ہوں میں

زندگی کی شال پر چلتا ہوں میں

دریائے نیکر کے کنارے

یاد کرتا ہوں جوانی شاعر مشرق کی میں

بُن رہا ہوں پھر کہانی شاعر مشرق کی میں

دریائے نیکر کے کنارے

میں مکان حضرت اقبال میں پھرتا ہوا

فلسفے کے اک گزشتہ حال میں پھرتا ہوا

شاعری کے اک سنہری تھال میں پھرتا ہوا

دریائے نیکر کے کنارے

ہم اُس مکان پر بھی گئے جہاں علامہ اقبال رہا کرتے تھے، اُسے گورنمنٹ آف پاکستان نے بہت عرصہ پہلے خرید کر اقبال میوزیم بنا دیا تھا مگر جب سے موجودہ سفیر آئے ہیں، وہ بند کردیا گیا۔ کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ چونکہ کمیونٹی سے فنڈنگ کر کے وہ مکان خریدا گیا تھا اِس لئے اُس کی ملکیت حکومت پاکستان کے پاس نہیں تھی۔ جرمنی میں تعینات سفیر ہی اُس کے تمام معاملات دیکھتا تھا، سو اُسے دوبارہ خاموشی سے فروخت کر دیا گیا یا کسی کو کرائے پر دے دیا گیا۔ اِس وقت اُس جگہ کچھ لوگ قیام پزیر ہیں۔ اعجاز حسین پیارا اور میں نے اِس مقصد کے لئے برلن میں پاکستانی سفارتی عملے سے ملنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ شاہ محمود قریشی کو فوری طور پر جرمنی کے پاکستانی سفارت خانے کے معاملات دیکھنا چاہئیں، جرمنی کی پاکستانی کمیونٹی کے بقول اکثر یورپی ممالک میں ایسے سفیر لگے ہوئے ہیں، جن کو پاکستانی کمیونٹی شاید پسند نہیں، اُن کے رویے کی وجہ سے اب پاکستانیوں نے اپنے سفارت خانے میں کام کے لئے جانا بھی چھوڑ دیا ہے۔

اوسلو میں بھی بہت بھرپور تقریب ہوئی، زیادہ تر ایسی کاروباری شخصیات شریک ہوئیں جنہوں نے پاکستان میں خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اُس میں بھرپور اضافہ کے لئے کوشاں بھی ہیں، تقریب میں یہ بھی بات سامنے آئی کہ اگر کوئی پاکستان بینک اوسلو میں کھل جائے تو تمام پاکستانی بزنس مین اپنا کاروبار اُسی کی وساطت سے کریں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ عمران خان کو چاہئے کہ وہ تمام اوورسیز پاکستانیوں سے کہے کہ جن ممالک میں پاکستانی بینک موجود ہیں وہ مالی معاملات انہی کی وساطت سے کریں، یہ بھی ایک طرح سے ان کی پاکستان میں سرمایہ کاری ہو گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین