• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بلوچستان میں ماضی میں حالات کیوں بارباربگاڑ کی جانب سفرکرتے رہے اس کو سمجھنے کی غرض سے ایک کہانی بیان کرتاچلوں۔ایک سلطنت ہواکرتی تھی اس میں ایک گرواورچیلا سیاحت کرتے آنکلے لوگوں نے اُن کی خاطرمدارات کی انتہاکردی بادشاہ تک کھلانے پلانے میں لگ گیا گروکو سمجھ نہ آئی کہ ہم میں ایسی کیا خاص بات ہے جو یہ خاطرمدارت کا انتظام ہورہا ہے مگرچیلا توبس کھانے پینے میں مشغول ہوگیا اورخوب موٹاتازہ ہوگیا گرونے ایک دن چیلے سے کہاکہ یہاں سے اب کوچ کرتے ہیں کیونکہ جو بلاوجہ خاطرمدارت پر جت گئے ہیں وہ بلاوجہ نقصان دینے سے بھی بازنہیں آئیںگے مگرچیلا تو مست تھا گروکے ساتھ چلنے سے انکارکردیا گروکے جانے کے کچھ دنوں بعدسلطنت میں ایک شخص کو پھانسی دینے کا وقت آیا چیلا بھی پھانسی کا تماشہ دیکھنے چلاگیا جب پھانسی کا پھندامجرم کے گلے میں ڈالاگیا تووہ پھندابڑاجبکہ گلا چھوٹاتھا مجرم کو اتارلیا گیا مگربادشاہ نے کہاکہ آج پھانسی دینے کی تاریخ ہے توپھانسی توکسی کو ہونی چاہئے لہٰذا تماشائیوں میں سے جس کے گلے میں پھندادرست آ جائے اس کو پھانسی دے دوپھندےسے گلے ماپنے شروع کردئیے گئے اتفاقاً پھنداچیلے کے گلے میں ٹھیک آگیا بادشاہ نے کہااسی کو پھانسی دے دو چیلے کی توچولیں ہل گئیں سپاہی اُس کو پھانسی گھاٹ کی جانب لے جانے لگے تواچانک اُس کا گروبھی وہاں آنکلاچیلا گروکو دیکھ کر چیخ وپکارکرنے لگاکہ مجھے بچائو گروآگے بڑھا اورپھندااپنے گلے میں ڈال کر ضدکرنے لگا کہ پھانسی مجھے دے دوبادشاہ بھی یہ نظارہ دیکھ رہا تھا اُس نے گروسے پوچھا تجھے اپنے چیلے سے اتنا پیارہے گروبولاپیارنہیں بلکہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ جس کو آج پھانسی دی جائے گی وہ جنت میں بہت اُونچے درجے پر ہوگا بادشاہ آگے بڑھا اورپھانسی کا پھندااپنے گلے میں ڈال لیا اورگروسے پوچھا توسچ کہتاہے گروبولا موقع مجھے دوخودجنت کے مزے اڑانے مت جائوبادشاہ نے اشارہ کیا سپاہی نے پھنداکھینچ دیا اوربادشاہ جھول گیاجبکہ گرونے چیلے کو اشارہ کیا اب یہاں سے بھاگ چل۔ بس بلوچستان میں ماضی میں یہی ہوتارہا کہ یاتواتنی خاطرمدارات کروکہ وہ اپنے علاقے میں بادشاہ بن بیٹھے اورعوام کو اُن کے حقوق دلانے کے حوالے سے چشم پوشی اختیارکرلویاپھر کسی کے گلے میں بھی پھنداڈال دو کہ ماریں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گااورپھر یہ کربھی گزروچاہے ریاست کوجتنا مرضی نقصان پہنچ جائے ماضی میں حکمت عملی سرے سے ناپیدرہی حالانکہ اگر پاکستان بننے کے بعداوراس سے قبل کی بلوچ مسلح تحریکوں کاجائزہ لیاجائے تویہ بالکل واضح ہوگاکہ یہ تحریکیں صرف قبائل کی اپنی رہیں اوردیگرقبائل کی واضح ترین اکثریت اُن سے لاتعلق رہی یہ بلوچستان کے مزاج میں شامل ہے مثلاً 1893ء میر گوہر خان نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی مگران کے اپنے جھالاوان تک سے کسی سردارنے اُن کا ساتھ نہ دیا اُن کا لشکر صرف زہریوں پر مشتمل تھا وہ شہید ہوئے تولشکر ختم ،1915 ء میں نواب خان محمد کی مسلح تحریک تھی انہیں حالات کاشکارہوئی اُن کی شہادت کے بعدلشکر ختم بلکہ اُن کاجانشین سرکارانگلشیہ کا بڑاوفاداربن گیاپاکستان کے قیام کے بعدپرنس کریم اورنواب نوروزخان کے ساتھ بھی یہی حالات درپیش رہے بلکہ نیپ حکومت کی برطرفی کے بعد تحریک جو شروع میں نسبتاً زیادہ طاقتورتھی 1977ء تک اپنا اثرکھورہی تھی جھالاوان وغیرہ میں تو بالکل دم توڑچکی تھی بلوچستان میں 1930 ء کی دہائی میں قلات نیشنل پارٹی سرگرم ہوئی 1939 ء میں مستونگ میں اس کے جلسے پر سرداروں کے لشکر اورفوج نے حملہ کیا اورتشددکیا1940 کے اوائل میں قلات نیشنل پارٹی آل انڈیا پیپلزکانفرنس سے منسلک ہو گئی جس کے صدرجواہر لال نہروتھے جبکہ بزنجو صاحب اس کی ورکنگ کمیٹی کے رکن بن گئے جب برصغیر کی آزادی کا سورج طلوع ہونے والا تھا توبزنجو صاحب خودبیان کرتے تھے کہ وہ مولانا آزادکے پاس آزاد بلوچستان کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے گئے مگر مولانا آزادنے اُن کے خیال کو بلوچستان کیلئے ناقابل عمل قراردے دیا خان آف قلات کے الحاق کی دستاویزات پر دستخط کرنے سے قبل خاران کے سردارنواب حبیب اللہ خان لسبیلہ کے جام میر غلام قادرخان اورمکران کے خان گچکی حکومت پاکستان سے درخواست کرچکے تھے خان آف قلات داخلی سطح پر بہت کمزورہوچکے تھے بلوچستان کی مسلح تحریک کو اورسیاست کا اجمالی جائزہ بیان کرنے کا مقصدیہ ہے کہ بلوچستان میں کبھی بھی تناورمسلح جدوجہد نہیں رہی اوربلوچستان کے اہل دانش اچھی طرح جانتے ہیں کہ آزاد بلوچستان کا نظریہ قابل عمل نہیں ہے پھر سوال یہ پیداہوتاہے کہ بلوچستان میں بارباربدامنی بڑھ کیوں جاتی ہے اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ بلوچستان کو ماضی میں آمروں کے طریقے کارسے سنبھالنے کی کوشش کی جس میں سیاسی سوچ توکیا ہوتی سیاست کے حوالے سے ماسوائے منفی خیالات کے اورکچھ نہ تھی اس وجہ سے بلوچستان بارباربدقسمتی کا شکارہوتارہا بلوچستان میں اب ماضی کی نسبت بہت سکون آچکا ہے جو دھیرے دھیرے بڑھ رہا ہے اس کی وجہ صرف موجودہ وفاقی حکومت کی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی کوششیں ہیں اگرمعاملات اسی اندازمیں بڑھتے رہے توبلوچستان کے حالات عمومی سطح پر آجائیں گے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی قیادت کی راہ میں کوئی دوسری قوت مزاحم نہ ہواورسیاسی قیادت کی صلاحیتوں پر بھروسہ کیاجائے برسبیل تذکرہ بیان کرتاچلوں کہ ون یونٹ سے بہت ناراضگی تھی اوراس کے مفادات پنجاب کے حوالے سے جانے جاتے تھے حالانکہ مغربی پاکستان اسمبلی میں ون یونٹ کے خلاف قراردادآئی اورماسوائے تین ارکان کے تمام نے ون یونٹ کی مخالفت میں ووٹ دیا مگر اسکندر مرزا اوراُن کے آمرجانشین اپنی آمرانہ سوچ سیاسی فہم کے مقابلے میں نافذکرتے رہے نتیجہ سب کے سامنے رہا کیونکہ پھنداتوکسی کے گلے میں ڈالنا ہی تھا بدقسمتی سے گلامشرقی پاکستان کاگھٹ گیا۔
تازہ ترین