• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آسیہ زین

آج اسکول میں خوب چہل پہل تھی، سارے بچّے اپنے والدین کے ساتھ آئے تھے۔ رمشا بھی اپنی امّی کے ساتھ اسکول آئی تھی۔ اندر داخل ہو کر اس کی نظریں اپنی کلاس فیلوز کا تعاقب کرنے لگیں۔ دور سے ہی اسےحنا اورکنول نظر آئیں۔ دونوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں نتیجہ تھا۔حنا نے ہمیشہ کی طرح پہلی پوزیشن لی تھی اوکنول بھی نمایاں نمبروں سے پاس ہو گئی تھی۔

رمشاچوتھی جماعت کی طالبہ تھی۔ پڑھنے لکھنے میں بس واجبی ہی تھی۔ محنت اتنی کرتی کہ پاس ہو جائے۔ اسے نمایاں نمبر حاصل کرنے کی لگن اور شوق نہ تھا۔ آج نتیجے کے دن بھی اس کے چہرے پر کوئی خاص خوشی نہ تھی۔ امّی کے ساتھ جب وہ اپنی جماعت میں داخل ہوئی تو ٹیچر نے امّی کے سامنے اس کا نتیجہ رکھا ’’ارے یہ کیا…؟‘رمشا تو تین پرچوں میں فیل تھی۔ ’’ایسا کیوں؟‘‘ امّی نے الجھ کر ٹیچر سے پوچھا، تب ٹیچر نے فائل امّی کے سامنے رکھ دی۔

وہ اردو، اسلامیات اور انگلش میں فیل تھی۔ تینوں پرچے سرخ سرخ دائروں سے بھرے پڑے تھے، اردو اورانگریزی اسپیلنگ کی اتنی غلطیاں کی تھیں کہ پاسنگ مارکس سے بھی کم ملے تھے۔

امّی نے سر پکڑ لیا۔رمشا حسب معمول لاپروا انداز میں بیٹھی پرچے دیکھ رہی تھی۔

ٹیچر نے کہا ’’دراصل رمشا اسپیلنگ پر توجّہ نہیں دیتی۔ یہ نمبر اس کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ آپ ان پر سخت محنت کرائیں تاکہ یہ سالانہ امتحان میں کامیاب ہو سکے۔‘‘

’’چلیں ٹھیک ہے، میں کوشش کروں گی۔‘‘ امّی ٹیچر کو خداحافظ کہہ کر باہر نکل آئیں۔

گھر آ کر امّی نے رمشا کو خوب سنائی اور سزا کے طور پر ایک ہفتے کے لئے اس کا جیب خرچ اور کھیل کود بھی بند کر دیا۔

ابّو رات کو دفتر سے آئے تو انہوں نے بھی اسے بہت ڈانٹا۔ وہ رونے لگی۔ فیل ہونے سے زیادہ اسے جیب خرچ اور کھیل کود بند ہونے کا دکھ تھا۔ اسی دکھ میں روتے روتے وہ سو گئی کہ اچانک شور شرابے سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتی ہے کہ ایک بڑی سی عمارت میں ایک بڑا سا ہال تھا۔ اس میں سامنے اسٹیج سا بنا ہوا تھا۔ دونوں طرف کٹہرے بنے تھے۔ اس کے سامنے کرسیاں رکھی تھیں جن پر لوگ بیٹھے تھے۔وہ رونے لگی کہ میں کہاں آ گئی ہوں؟ تب ایک آدمی اس کے پاس آیا۔ پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘ ’’میں کہاں ہوں، مجھے امّی کے پاس جانا ہے‘‘ اس نے روتے ہوئے کہا۔‘‘ ’’یہ عدالت ہے، اب تم فیصلہ سنے بغیر کہیں نہیں جائو گی۔‘‘ اس شخص نے سختی سے کہا۔ ’’ابھی سب پتا چل جائے گا، خاموش رہو‘‘ رمشاڈر کر خاموش ہو گئی۔ میں نے کیا کیا ہے، وہ سوچنے لگی۔ تب آواز سنائی دی، مقدمے کی کارروائی شروع کی جائے۔

رمشا پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟

تب اسے ایک شخص نے لے جا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ وکیل نے جرح شروع کر دی۔

’’جج صاحب! یہ لڑکی ملزم ہے۔ آج اس عدالت میں انوکھا مقدمہ پیش ہوا ہے جو آج سے پہلے کسی عدالت میں پیش نہیں ہوا ہو گا۔ آج تمام حروف تہجی فریادی بن کر یہاں موجود ہیں۔ اس بچّی پر الزام ہے کہ جب بھی لکھنے کےلئے قلم اٹھاتی ہے تو کسی نہ کسی حرف کی ٹانگ اور ہاتھ توڑ دیتی ہے۔ پھر وکیل کا اشارہ پا کر ایک کے بعد ایک لفظ اٹھتے گئےاور بتا تے گئےکہ رمشا اردو اور انگریزی کے الفاظ ایسے لکھتی ہے کہ معنیٰ بدل جاتے ہیں‘‘ سارے الفاظ کا یہی رونا تھا۔

اتنی ساری شکایات سن کررمشا سر پکڑ کر رہ گئی، مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ پرچہ تو بھر دیتی تھی لیکن ان لاپرواہیوں کے سبب فیل ہو جاتی یا نمبر بہت کم لاتی۔

جج خاموشی سے حروف کے الزامات سنتا رہا۔ آرڈر…آرڈر…جج کی آواز گونجی۔ ’’تمام گواہوں اور فریادیوں کے الزامات کی روشنی میں میں اب اس بچّی سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ الزامات درست ہیں؟

رمشا نےسے سر جھکا لیا کہ یہی سچ ہے۔

اب جج کی آواز سنائی دی،بچی نے اپنا جرم قبول کر لیا ہے لہٰذا معزز عدالت کا فیصلہ ہے کہ اس بچّی کے کان کاٹ کر اس کی ناک کی جگہ اور ٹانگ اور ہاتھ کو اس کی اصل جگہ سے بدل دیا جائے، پھر اسے پتہ چلے گا کہ حروف کے ساتھ جب یہ سلوک کیا جاتا ہے تو ان کو بھی کتنی تکلیف ہوتی ہے۔

عدالت حکم دیتی ہے کہ سزا پر جلد عمل درآمد کیا جائے۔ عدالت برخاست کی جاتی ہے۔رمشا کا تو جیسے لہو خشک ہو گیا تھا۔ ’’چلو! ایک جلاد صفت سپاہی نے اس کا بازو پکڑا تو اس کی چیخوں نے پوری عدالت کو سر پر اٹھا لیا۔‘‘ نہیں …نہیں! مجھے سزا مت دو، آئندہ میں ایسا نہیں کروں گی، مجھے مت لے جائو۔

’’کیا ہوا؟‘‘ امّی زور زور سے اسے جھنجھوڑ رہی تھیں، انہوں نے اس کا بازو پکڑ رکھا تھا۔

’’امّی میں آئندہ ایسا نہیں کروں گی۔ اب کبھی غلطی نہیں ہو گی۔‘‘ وہ امّی سے لپٹ کر بلک بلک کر رو رہی تھی۔

’’اگر انسان اپنی غلطی سدھار لے تو کامیابی اس سے دور نہیں‘‘ یہ کہہ کر امّی نے اسے پیار کیا۔

تازہ ترین